خلاف ورزی اور تساہل میں مسلمان آگے، دینی جامعات اور مذہبی شخصیتیں متحرک
حیدرآباد۔ 26 مارچ (سیاست نیوز) ایسے وقت جبکہ دنیا بھر میں کورونا وائرس کا خطرہ بدستور منڈلارہا ہے اور عوام اپنے آپ کو مکانات تک محدود رکھتے ہوئے وائرس کے اثرات سے بچنے کی کوشش کررہے ہیں۔ دنیا بھر کے تمام ممالک نے اپنے اپنے طور پر لاک ڈائون یا پھر کرفیو نافذ کردیا ہے تاکہ عوامی اجتماعات اور ہجوم کو روکا جاسکے۔ ہندوستان میں بھی حکومت نے 14 اپریل تک 21 روزہ لاک ڈائون کا اعلان کیا جبکہ تلنگانہ میں رات کا کرفیو نافذ کیا گیا۔ احتیاطی تدابیر کے سلسلہ میں عوام میں طرح طرح سے شعور بیدار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ قانونی کارروائی کی دھمکی دی گئی تاکہ عوام کو گھروں تک محدود رکھا جائے۔ تلنگانہ میں اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ حیدرآباد ہو یا اضلاع مسلم علاقوں میں احتیاطی تدابیر میں لاپرواہی برتی جارہی ہے۔ لاک ڈائون اور کرفیو کے باوجود نوجوان کسی ضرورت یا مجبوری کے بغیر بھی سڑکوں پر دکھائی دے رہے ہیں۔ پولیس کی جانب سے طاقت کے استعمال کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ تحدیدات کی خلاف ورزی نے اگرچہ دیگر طبقات کے افراد بھی شامل ہیں، لیکن زیادہ تر مسلمانوں کی جانب سے خلاف ورزیوں نے سماج میں نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علماء و مشائخین اور دینی جامعات نے نماز جمعہ کے موقع پر مساجد میں آنے سے گریز کرنے کی اپیل کی ہے۔ مسلمانوں سے اپیل کی گئی کہ وہ نماز جمعہ کے بجائے نماز ظہر اپنے مکانات میں ادا کرلیں کیوں کہ ازروئے شریعت ہنگامی حالات میں اس کی اجازت ہے۔ دیگر مذاہب کے مذہبی مقامات کو پہلے ہی بند کردیا گیا ہے۔ جبکہ مساجد میں محدود تعداد کے ساتھ پنج وقتہ نمازوں کا سلسلہ جاری ہے۔ وائرس کے پھیلائو کو روکنے کے لیے ہجوم کو روکنا ضروری ہے لہٰذا نماز جمعہ کے سلسلہ میں ملک بھر میں مسلمانوں کے لیے خصوصی اپیل جاری کی گئی ہے۔ تلنگانہ میں وائرس سے مبینہ طورپر متاثرہ افراد میں اکثریت مسلمانوں کی پائی گئی ہے۔ کریم نگر میں انڈونیشیا سے تعلق رکھنے والے افراد میں کورونا وائرس پائے جانے کے بعد مختلف علاقوں میں بڑے پیمانے پر مہم چلائی گئی اور انڈرونیشیائی شہریوں سے ربط میں آنے والے افراد کی جانچ کی جارہی ہے۔ کریم نگر کے مقامی ہاسپٹل میں 62 افراد کا کورونا وائرس ٹسٹ کیا گیا اور انہیں بطور احتیاط ہاسپٹل کے خصوصی وارڈ میں رکھا گیا۔ 62 مشتبہ مریضوں میں 58 مسلمان بتائے جاتے ہیں۔ یہ دراصل وہ لوگ ہیں جو انڈونیشیائی باشندوں کے ساتھ ربط میں رہے اور حکام میں کسی بھی امکانی خطرے کو ٹالنے کے لیے ایسے افراد کو جانچ کے لیے منتقل کردیا ہے۔ مسلم قائدین اور مذہبی شخصیتوں کا یہ احساس ہے کہ مسلمانوں کو احتیاطی تدابیر کے سلسلہ میں حکومت کے احکامات کی پابندی کرنی چاہئے۔ خدا نخواستہ تلنگانہ میں مرض شدت اختیارکرے تو مسلمانوں کی لاپرواہی کو ذمہ دار قرار دیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ دینی جامعات میں مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ مساجد کے بجائے مکانات میں عبادت کریں۔