کورونا وباء، ٹیکہ اور تنازعہ

   

پی چدمبرم
سابق وزیر داخلہ

ایسا لگتا ہے کہ کووڈ ۔ 19 کی عالمی وباء اپنے اختتام کو پہنچ رہی ہے لیکن اب تک پوری طرح اس کا خاتمہ نہیں ہوا اور دوسری طرف یہ بھی لگ رہا ہے کہ کورونا وائرس پر قابو پانے کے لئے ویکسین آرہی ہے، لیکن اب تک یہ لوگوں یا گھروں تک نہیں پہنچ پائی۔ عالمی وباء کے جانے اور ویکسین کے آنے کے بارے میں باتیں تو بہت ہو رہی ہیں لیکن ایک چیزیں ایسی ہے جو موضوع بحث بنی ہوئی ہے اور اپنے مقام پر قائم ہے اور وہ ہے کورونا وائرس کے پھیلاؤ پر پیدا شدہ تنازعہ۔
جیسے کہ میں نے پہلے لکھا ہے کہ کورونا وائرس متاثرین اور اس کے باعث مرنے والوں کی جو کثیر تعداد ہے وہ ہمارے لئے بہت ہی خطرناک تباہی کی ہمیشہ یاد دلاتی رہے گی۔ اگر ہم اپنے ملک میں کورونا وائرس متاثرین کی تعداد کی بات کرتے ہیں تو یہ تعداد 1,04,14,044 (امریکہ کے بعد دوسرا مقام) تک پہنچ جاتی ہے جبکہ ہندوستان میں کورونا وائرس سے متاثر ہوکر 1,50,606 افراد اپنی زندگیوں سے محروم ہوچکے ہیں (امریکہ اور برازیل کے بعد تیسرا مقام) جبکہ ہمارے ملک میں فی الوقت کورونا وائرس کے سرگرم کیسیس 2,22,416 ہے۔ ہماری آبادی 138 کروڑ نفوس پر مشتمل ہے اور خود کو خوش قسمتوں میں شمار کرسکتے ہیں لیکن ہم دنیا میں عالمی وباء کے کنٹرول اور مینیجمنٹ کی درخشاں مثال یقینا نہیں ہوسکتے۔ اگر ویکسین کی تیاری کے لحاظ سے دیکھا جائے تو دنیا میں 6 ویکسین یا ٹیکوں کو منظوری دی گئی ہے۔ ہم روسی اور چینی ٹیکوں کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔ اگرچہ یہ ٹیکے متعلقہ ممالک میں تقسیم کئے جارہے ہیں اور دیئے بھی جارہے ہیں۔ دوسرے ریگولیٹرس نے روسی یا چینی ٹیکوں کے استعمال کی منظوری نہیں دی ہے۔

چار ٹیکے بڑا موقع
اب دیکھتے ہیں کہ دیگر چار ٹیکے کونسے ہیں؟ ان چاروں میں پہلا ٹیکہ یا ویکسین فائزر ہے جسے یو ایس، ایف ڈی اے نے منظوری دی ہے۔ ایف ڈی اے دراصل سائنسی دنیا اور پیش طب میں ایک سنہرا معیار یا پیمانہ مانا جاتا ہے۔ جو ویکسین تیار کئے جارہے ہیں ان کے بارے میں ماہرین طب کا کہنا ہے کہ ان میں قوت مدافعت پیدا کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ بہرحال فائزر ویکسین کی اس اصلاحیت، سیفٹی اور موثریت آزمائش کے تینوں لازمی مرحلوں میں ثابت ہوئی ہے لیکن ایک خرابی اس کے رکھنے کے حالات ہیں (اس ٹیکے کو 70 ۔ ڈگری سیلسیس پر رکھا جاتا ہے) اور ہندوستان میں اس کی قیمت ہے (جو غیر متوقع ہے) فائزر نے ایمرجنسی یوزاپروول (EUA) کے لئے ڈرگس کنٹرولر جنرل آف انڈیا (DCGI) میں درخواست دی ہے لیکن تین مواقع ملنے کے باوجود اس کے عہدہ دار ماہرین کمیٹی کے روبرو اپنا کیس پیش کرنے کے لئے حاضر نہیں ہوئے۔ میرا خیال یہ ہے کہ فائزر اپنی ویکسین کی ہندوستان میں مارکٹنگ اور تقسیم میں دلچسپی نہیں رکھتی کیونکہ اسے یہ پتہ ہے کہ ہندوستان میں اس کی قیمت ناقابل برداشت ہے اور اس ٹیکے کے اسٹوریج کے لئے جو موزوں حالات نے چاہئے وہ ہندوستان میں نہیں ہیں چونکہ فائزر ویکسین کو کئی ملکوں؍ ریگولیٹرس نے منظوری دی ہے اور عالمی سطح پر اس کی طلب بھی بہت زیادہ ہے ان حالات میں فائزر اپنے آرڈرس کی ترجیحات میں ہندوستان کو زیریں مقام پر رکھ سکتا ہے۔ دوسرا ٹیکہ آکسفورڈ ۔ آسٹرا جنیکا کا ہے جسے سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا (SII) سے لائسنس کے تحت تیار کیا جارہا ہے۔ ہم فخر کرسکتے ہیں کہ اس کے ٹسٹ کے لئے ہندوستان کی ایک تحقیقی و دواساز کمپنی کو اہل قرار دیا گیا۔ یہ ویکسین کووشیلڈ کے نام سے تقسیم کی جارہی ہے۔ تیسری ویکسین ماڈرنا کی ہے جس نے منظوری کے لئے اب تک درخواست نہیں دی ہے۔

غیر ضروری تنازعہ
چوتھا ویکسین بھارت بائیوٹیک کا کوویکسین ہے۔ اس کمپنی نے اپنے کام سے واقف کروانے اور بیرونی محققین کے علم سے استفادہ کے لئے اقدامات کئے ہیں۔ اس کے باوجود کووویکسین صد فیصد ہندوستانی پراڈکٹ ہے۔ یہ ہندوستان کے لئے قابل فخر لمحہ ہے لیکن ٹیکہ کی منظوری غیر ضروری تنازعہ کا شکار ہوگئی ہے۔ DCGI اور حکومت کے ترجمانوں (خاص طور پر ڈاکٹر وی کے پال اور ڈاکٹر بلرام رگھوا) کو شروعات میں ہی یہ واضح کردینا چاہئے تھا کہ کوو ویکسین کا ای یو اے تقسیم اور تیسرے مرحلہ کے طبی آزمائش اور نتائج خاص طور پر اس کی موثریت کے نتائج پر ہی اس کی مزید تقسیم اور استعمال منحصر ہوگی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ مشہور و معروف سائنسدانوں وائرالوجسٹ، مائیگرو بائیولوجسٹ اور ڈاکٹرس نے اس کی پیشرفت پر سوال اٹھائے ہیں (یعنی اُس کی جلد منظوری پر سوال اٹھائے ہیں جبکہ اس ٹیکہ کی طبی آزمائش کا تیسرا مرحلہ جاری ہے) ہنگامی حالات میں ہنگامی علاج کی ضرورت ہوتی ہے جہاں تک ہندوستان میں ٹیکوں کی ضرورت ہے وہ کثیر تعداد میں درکار ہیں۔ یہ ایسی تعداد ہے جو سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا کا کووڈ شیلڈ پورا کرسکتا ہے اور نہ ہی ٹیکوں کی درآمد اس طلب سے نمٹ سکتی ہے۔ عقل مندی اسی میں ہے کہ کسی اور امکانی ٹیکہ کی تیاری کی حوصلہ افزائی کی جائے اور آزمائش کا جو عمل ہے اس میں تیزی لائی جائے جبکہ ہنگامی حالات میں استعمال کے لئے ایک ویکسین بیک اپ کے طور پر تیار رکھا جائے۔ میرا شخصی خیال یہ ہے کہ ہمیں بی سی جی آئی اور حکومت کی مدد کرنی چاہئے۔ جہاں تک کو ویکسین کے مضر ہونے کا سوال ہے اس کے اب تک کوئی شواہد نہیں ملے۔ اب تک جو آزمائشیں ہوئی ہیں اس میں قوت مدافعت بڑھانے کی صلاحیت اور سیفٹی کی خوبیاں دیکھی گئی ہیں۔ اس کی موثریت کے بارے میں کوئی منفی رپورٹس موصول نہیں ہوئی۔ ہمیں اجتماعی طور پر ایک بات کی امید کرنی چاہئے کہ کو ویکسین اپنے تیسرے مرحلہ کی آزمائش کو جاریہ ماہ کے اواخر تک مکمل کرلیگا اور مارچ تک اس کے تنائج کا جائزہ لیا جائے گا۔ اس کے بعد ہی ہم ان دو ٹیکوں کو استعمال کر پائیں گے۔ ساتھ ہی ترقی پذیر ممالک کو ان ٹیکوں کی برآمد بھی کریں گے اس طرح ہندوستان ان ممالک کی صف میں شامل ہو جائے گا جو اندرون 12 ماہ ٹیکہ سے متعلق ریسرچ، اس کی تیاری، اس کی تقسیم اور استعمال کے قابل ہوں گے۔ مجھے پہلے یہ شک تھا کہ سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا اور بائیوٹیک کے درمیان کاروباری رقابت پیدا ہوگی لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ مسٹر ادر پونا والا اور مسٹر کرشنا ایلا نے چند دنوں میں ہی اپنے اختلافات کو فراموش کردیا اور ایک دوسرے سے مل جل کر کام کرنے کا وعدہ کیا۔

اصل ازمائش کا اب ہوا آغاز
اصل آزمائش تو اب شروع ہوئی ہے، دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کس طرح 138 کروڑ ہندوستانیوں کو ٹیکے لگائے گی۔ اس سلسلہ میں مختلف خیالات ظاہر کئے جارہے ہیں مثال کے طور پر ترجیحی بنیاد پر یہ ٹیکے لگائے جانے چاہئے اور کسی بھی حال میں اس ترجیح کو تبدیل نہیں کیا جانا چاہئے۔ دوسرا یہ کہ تمام سرکاری اسپتالوں اور مراکز ٹیکہ اندازی میں یہ ٹیکہ مفت دیا جانا چاہئے۔ اگر آپ چارجس یا اس میں رعایت دیں گے یا پھر اس سے کرپشن کی صورتحال پیدا ہوگی۔ ایک مرتبہ سربراہی میں بہتری پیدا ہوتی ہے تو پھر اس عمل میں خانگی دواخانوں کو بھی شامل کیا جانا چاہئے اگر وہ ٹیکہ خریدنے کے خواہاں ہو اور اگر اپنے صارفین کو چارج کرتے ہوں تو ایسے میں حکومت کو چاہئے کہ اس کی قیمت کا تعین کریں اور ان لوگوں کو جو ٹیکہ کے لئے قیمت ادا کرنے کے قابل ہیں اس کی اجازت دیں۔ جس طرح ہم نے ہندوستان میں تیار کردہ ٹیکوں کی برآمد کی اجازت دی ہے اسی طرح ہمیں منظورہ ٹیکہ کی درآمد کی اجازت دی جانی چاہئے۔ اس کے علاوہ ہمیں نامعلوم نتائج و عواقب کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہنا بھی ضروری ہے۔ ہمیں اپنے سائنسدانوں اور محققین پر پورا بھروسہ کرنا چاہئے تاکہ طبی مسائل کا حل دریافت ہوسکے۔ ویسے بھی آخر میں سائنس ہی کی فتح ہوگی۔