کورونا وباء ‘ مریضوں کیلئے ایمبولنس کا حصول مشکل ‘ خانگی گاڑیوں کا استعمال

,

   

خانگی ایمبولنس گاڑیوںمیںبنیادی سہولیات اور قابل نیم طبی عملہ عدم دستیاب ‘ بھاری کرایہ کی وصولی
حیدرآباد۔ تلنگانہ اور گریٹر حیدرآباد میں کورونا کی وباء اپنے زوروں پر ہے اور یومیہ ہزاروں افراد اس کا شکار ہوتے جا رہے ہیں ایسے میںمریضوں کو دواخانے منتقل کرنے کیلئے ایک ایمبولنس کا حصول بھی انتہائی مشکل ہوتا جا رہا ہے ۔ جو خانگی ایمبولنس گاڑیاں ہیںان میں بنیادی سہولتوں تک کا فقدان پایا جارہا ہے ۔ تلنگانہ اسٹیٹ 108 ائمپلائز یونین کے صدر اشوک پلے نے کہا کہ جو خانگی ایبولنس گاڑیاں چلائی جا رہی ہیں ان میں تقریبا 90 فیصد ایسی ہیں جو انتہائی نگہداشت کے زمرہ میں آنے والے مریضوں کو منتقل کرنے کیلئے مناسب نہیں ہیں۔ ان گاڑیوں میں کوئی کفالیفائیڈ نیم طبی عملہ یا آَات وغیرہ تک دستیاب نہیں ہوتے ۔ بالا نگر کے ایک شہری کا کہنا ہے کہ یہ حقیقت ہے کہ خانگی ایمبولنس گاڑیوں میں کسی طرح کی سہولیات دستیاب نہیں ہیں۔ اس نے بتایا کہ اس کے گھر کے سامنے ہی اس طرح کا ایک واقعہ پیش آیا ۔ وہاں ایک شخص اپنی اہلیہ کو دواخانے منتقل کرنا چاہتا تھا ۔ اس نے ایک ایمبولنس گاڑی کی خدمات حاصل کی لیکن جیسے ہی وہ ایمبولنس میں سوار ہوا اس نے محسوس کیا کہ اس میں ایک فرسٹ ایڈ کٹ تک دستیاب نہیں ہے اور نہ ہی آکسیجن سلینڈر موجود ہے ۔ صرف گاڑیوں کو ٹرانسپورٹ وہیکل کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ مریضوں کو ایک سے دوسرے مقام کو منتقل کیا جاسکے ۔ حالانکہ کچھ مریضوں کو دواخانے منتقل کرنے میں کامیابی ہو رہی ہے لیکن طبی آلات اور کوالیفائیڈ عملہ کی عدم موجودگی کے نتیجہ میں کچھ اموات بھی پیش آ رہی ہیں۔ اسیطرح کے ایک واقعہ میں ایک 61 سالہ مریض کے رشتہ داروں نے بتایا کہ ان کی تمام کوششوں کے باوجود مریض کو بچایا نہیں جاسکے کیونکہ اس کی حالت ایمبولنس میں آکسیجن نہ ہونے کی وجہ سے ابتر ہوگئی تھی ۔ مریض کو ایس ایل جی ہاسپٹل نظام پیٹ سے گاندھی ہاسپٹل منتقل کرنا تھا کیونکہ وہ کورونا پازیٹیو قرار پایا تھا ۔

رشتہ داروں نے بتایا کہ ایس ایل جی ہاسپٹل میں علاج کے دوران مریض کو آکسیجن دی جا رہی تھی ۔ ایمبولنس کی بکنگ کے وقت ہی بتادیا گیا تھا کہ مریض کی حالت تشویشناک ہے اس کے باوجود آکسیجن فراہم کرنے کا کوئی انتظآم نہیں کیا گیا تھا اور نہ ہی کوئی قابل طبی عملہ اس میں موجود تھا ۔ مریض ایمبولنس میں ہی گرپڑا کیونکہ وہاں آکسیجن نہیں تھی ۔ مریضوں کے رشتہ داروں کا سوال ہے کہ کس طرح سے ان خانگی ایمبولنس گاڑیوں کو اجازت دی جا رہی ہے حالانکہ ان میںکسی طرح کی بنیادی سہولت تک بھی دستیاب نہیں ہے اور یہ گاڑیاں مریضوں کو منتقل کرنے کیلئے بھاری رقومات بھی حاصل کر رہی ہیں۔ رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ 20 کیلومیٹر کے اندر فاصلے تک مریض کی منتقلی کیلئے 9 ہزار سے 12 ہزار روپئے تک کا کرایہ اینٹھا جا رہا ہے ۔ خانگی ایمبولنس گاڑیاں چلانے والوں کا بھی اعتراف ہے کہ ان کی گاڑیوں میں آکسیجن کی سہولت دستیاب نہیں ہے اور نیم طبی عملہ اپنی جانب سے مریض کو سنبھالنے کی ممکنہ کوشش ضرور کرتا ہے لیکن بعض معاملات میں مریض جانبر نہیں ہوپاتے ۔