کورونا پابندیوں کا شب برأت پر اثر، عام جلسے منسوخ

,

   

مساجد میں عبادت کی اجازت نہیں، عوام کو مایوسی، رمضان کی عبادات اور تراویح پر اندیشوں کا اظہار
حیدرآباد ۔ کورونا کیسیس میں اضافے کے پیش نظر حکومت نے مذہبی اور دیگر اجتماعات پر جس طرح پابندیاں عائد کردی ہیں اس سے پھر ایک مرتبہ رمضان المبارک کی عبادات کے متاثر ہونے کا خطرہ پیدا ہوچکا ہے۔ حکومت نے 30 اپریل تک تمام مذاہب کی مختلف سرگرمیوں پر پابندی عائد کرتے ہوئے احکامات جاری کئے جس کا فوری اثر آج شب برأت کے موقع پر دیکھا گیا۔ حکومت کی پابندیوں کے نتیجہ میں شہر میں شب برأت سے متعلق تمام بڑے جلسوں اور اجتماعات کو ملتوی کردیا گیا۔ مختلف تنظیموں اور جماعتوں کی جانب سے ہر سال متبرک راتوں میں عام جلسوں کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں ملک کے نامور علماء کو مدعو کیا جاتا ہے۔ اس مرتبہ بھی مختلف جلسوں کا اعلان کیا گیا تھا لیکن حکومت کی جانب سے اچانک تحدیدات کے بعد منتظمین نے جلسوں کی منسوخی کا اعلان کردیا۔ مساجد میں شب برأت کے سلسلہ میں جلسوں کا اہتمام کیا جانے والا تھا لیکن کورونا پابندیوں کے سبب تمام پروگرامس منسوخ کردیئے گئے۔ حکومت کی پابندیوں کا اثر مساجد میں نمازوں کے اہتمام پر بھی پڑا ہے۔ بڑی مساجد میں نماز عشاء کے بعد عبادتوں کے اہتمام کی اجازت نہیں دی گئی۔ تاریخی مکہ مسجد میں مغرب سے ہی مصلیوں کی آمد پر روک لگا دی گئی تاکہ کسی بڑے اجتماع کو روکا جاسکے۔ حکومت کے زیر کنٹرول اس مسجد کے ذمہ داروں کو ہدایت دی گئی تھی کہ کورونا قواعد پر سختی سے عمل کیا جائے۔ مکہ مسجد میں ہر متبرک رات کو مغرب اور عشاء کے موقع پر ہزاروں افراد شرکت کرتے ہیں اور انتہائی نورانی منظر دکھائی دیتا ہے۔ تاہم گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی شب برأت کی عبادات سے مسلمان محروم رہے۔ شہر میں بیشتر مساجد میں نماز عشاء کی ادائیگی کے بعد مصلیوں کو مکانات میں عبادت کا اہتمام کرنے کی تلقین کی گئی۔ بتایا جاتا ہے کہ پولیس کی جانب سے مساجد کمیٹیوں کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ عبادات کے لئے لوگوں کو جمع ہونے سے روکیں۔ واضح رہے کہ حکومت کی نئی پابندیاں 30 اپریل تک نافذ رہیں گی اور اس وقت تک رمضان المبارک کا پہلا دہا گذر جائے گا۔ مکہ مسجد اور دیگر بڑی مساجد میں نماز ترویح کا اہتمام موجودہ پابندیوں کے پیش نظر خطرہ میں پڑ سکتا ہے۔ اگرچہ اس سلسلہ میں حکومت کی جانب سے کوئی وضاحت نہیں کی گئی لیکن عہدیداروں کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال کی طرح تراویح کا گھروں میں اہتمام کرنا پڑے گا۔ مساجد میں کم از کم 5 افراد کے ساتھ نمازوں کے اہتمام کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق کورونا کیسیس کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے 30 اپریل کے بعد کے قواعد طے کئے جائیں گے۔ اگر کیسیس کی تعداد میں کمی واقع ہوئی تو نہ صرف عبادت گاہوں کو کھول دیا جائے گا بلکہ تعلیمی اداروں کی کشادگی کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔ حکومت نے تازہ ترین احکامات میں جن مذہبی عبادتوں اور تہواروں کا ذکر کیا ہے ان میں شب برأت، ہولی، اگادی، رام نومی، مہاویر جینتی، گڈ فرائڈے اور رمضان شامل ہیں۔ رمضان المبارک کی شمولیت سے مسلمانوں کو مایوسی ہوئی ہے۔ مکہ مسجد میں نماز کی اجازت نہ دیئے جانے سے ناراض مصلیوں کا کہنا تھا کہ جب بازاروں میں کوئی پابندی نہیں ہے تو پھر مساجد میں عبادت سے کیوں روکا جارہا ہے۔ سنیما تھیٹرس، کلبس، بارس اور شاپنگ مالس میں کسی طرح کی پابندیاں عائد نہیں کی گئیں اور صرف عبادتوں کے معاملہ میں کورونا کا خوف دلاکر تحدیدات عائد کرنا عوام میں تشویش کا باعث بن چکا ہے۔ حکومت نے عبادتوں کے علاوہ ہر طرح کے جلوس، ریالیوں، عوامی اجتماعات پر پابندی عائد کردی ہے جو عوامی مقامات، گراؤنڈس، پارکس اور مذہبی مقامات پر ہوں گے۔