کورونا کا قہر ، ریاست میں 24 فیصد پٹرول اور 19 فیصد ڈیزل کی فروخت گھٹ گئی

   

سرکاری خزانے کو 800 کروڑ کا نقصان ، حیدرآباد سے لاکھوں لوگ اضلاع اور بیرون ریاست منتقل
حیدرآباد :۔ کورونا وائرس کے خوف سے گاڑیاں معمول سے کم سڑکوں پر دوڑ رہی ہیں ۔ حیدرآباد سے لوگ گاؤں کا رخ کررہے ہیں تو مزدور ریاست چھوڑ چکے ہیں گریٹر حیدرآباد میں آر ٹی سی کی سٹی بسیں ڈپوز تک محدود ہوگئی ہیں ۔ آئی ٹی خدمات ورک فرم ہوم پر انحصار کررہی ہیں ۔ جس سے 24 فیصد پٹرول اور 19 فیصد ڈیزل کا استعمال گھٹ گیا ہے ۔ نتیجے میں سرکاری خزانے کو 800 کروڑ روپئے کا نقصان ہوا ہے ۔ شہر حیدرآباد میں پٹرول بینکس کو چلانا ایک بہت بڑے بوجھ میں تبدیل ہوگیا ہے ۔ کورونا وائرس نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ اس وباء نے تمام شعبوں کی خدمات کو بڑی حد تک مفلوج کردیا ہے ۔ لاک ڈاؤن نافذ کرنے کے بعد تمام ٹرانسپورٹ خدمات بند ہوگئی تھی ۔ لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد کورونا کے پھیلاؤ میں جس تیزی سے اضافہ ہوا ہے ۔ بالخصوص گریٹر حیدرآباد کی جو صورتحال ہے اس کے خوف سے لوگ گھروں سے باہر نکلنے کو ترجیح نہیں دے رہے ہیں یا شہر میں موجود لوگ اپنے آبائی گاؤں کو روانہ ہونے میں زیادہ دلچسپی دکھا رہے ہیں ۔ اضلاع میں بھی ٹرانسپورٹ کے علاوہ دوسری سرگرمیاں بحال ہونے کے باوجود لوگ پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے یا اپنی ذاتی گاڑیوں میں سفر کرنے کو کم ہی پسند کررہے ہیں جس کی وجہ سے پٹرول اور ڈیزل کے استعمال میں بڑی حد تک گراوٹ آئی ہے ۔ جس کا راست اثر سرکاری خزانے پر پڑ رہا ہے ۔ ویاٹ کے ذریعہ حکومت کو کافی آمدنی ہوتی ہے ۔ تین ماہ تک نافذ رہے لاک ڈاؤن سے حکومت کو 800 کروڑ روپئے کا نقصان ہوا ہے ۔ لاک ڈاؤن سے قبل ویاٹ کی شکل میں حکومت کو ماہانہ 12 ہزار کروڑ روپئے وصول ہوا کرتے تھے ۔ تاہم ماہ جون میں حکومت کو صرف 6000 کروڑ روپئے ہی وصول ہوئے ہیں ۔ ریاست تلنگانہ میں 1.20 کروڑ گاڑیاں ہیں جس میں نصف سے زائد گاڑیاں حیدرآباد میں ہیں ۔ ریاست کے 33 اضلاع میں جملہ 2700 پٹرول بینکس ہیں جن میں جی ایچ ایم سی کے حدود میں 628 شامل ہیں ۔ لاک ڈاون سے قبل ریاست میں ماہانہ دیڑھ لاکھ لیٹر پٹرول اور ڈھائی لاکھ لیٹر ڈیزل فروخت ہوا کرتا تھا ۔ ماہ فروری میں 1,25,471 لیٹر پٹرول اور 2,57,249 لیٹر ڈیزل فروخت ہوا تھا ۔ لاک ڈاؤن نافذ ہونے کے بعد اپریل ۔ مئی ۔ جون میں پٹرول اور ڈیزل کا استعمال بڑی حد تک گھٹ گیا ۔ ماہ فروری کے فروخت سے تقابل کریں تو 24 فیصد پٹرول اور 19 فیصد ڈیزل کی فروخت گھٹ گئی ۔ ریاست میں پٹرول پر 35.2 فیصد اور ڈیزل پر 27 فیصد ویاٹ وصول کیا جاتا ہے ۔ جی ایچ ایم سی کے حدود میں رہنے والے مزدور اور متوسط طبقہ کے افراد اضلاع کا رخ کرچکے ہیں ۔ اس کے علاوہ مائیگرنٹ ورکرس بھی ریاست چھوڑ چکے ہیں ۔ سرکاری اعداد و شمار کے لحاظ سے 4 لاکھ افراد نقل مقام کرچکے ہیں مگر غیر سرکاری اعداد و شمار کے تحت تقریبا 20 لاکھ افراد شہر چھوڑ چکے ہیں جس سے بھی بڑی حد تک گاڑیوں کے استعمال میں کمی آئی ہے ۔ ساتھ ہی ڈیزل استعمال کرنے والی آر ٹی سی بسیں پوری طرح سڑکوں پر نہیں ہیں ۔ لاک ڈاؤن سے قبل ریاست بھر میں 10 ہزار سے زیادہ بسیں چلا کرتی تھی اب صرف 3500 تا 4000 بسیں چلائی جارہی ہیں ۔ ملازمین کے لیے آئی ٹی کمپنیاں اور دوسرے ادارے بھی خانگی گاڑیوں کا استعمال کیا کرتے تھے ۔ ورک فرم ہوم ہونے کی وجہ سے یہ مواقع بھی کم سے کم ہوگئے ہیں ۔ آٹوز اور کیابس میں سوار ہونے کے لیے عوام تیار نہیں ہیں ۔ اشیاء ضروریہ منتقل کرنے والی گاڑیوں کی خدمات بھی محدود ہوگئی ہے ۔ حیدرآباد کے بیشتر پٹرول بینکس میں صرف 40 تا 50 فیصد پٹرول اور ڈیزل کی فروخت ہورہی ہے ۔ جس پر پٹرول بینکس کو چلانا بہت بڑا بوجھ بن گیا ہے۔ پٹرول بینکس کے انتظامیہ کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن سے قبل روزانہ 12 ہزار لیٹر پٹرول اور اسی مقدار میں ڈیزل فروخت ہوا کرتا تھا ۔ اب روزانہ صرف 6 تا 7 ہزار لیٹر پٹرول و ڈیزل فروخت ہورہا ہے ۔ رات میں 9 بجے کے بعد پٹرول بنکس کو بند کردیا جارہا ہے جس سے آمدنی کے دروازے بند ہورہے ہیں اور پٹرول بینکس کو چلانا مشکل ہوگیا ہے ۔۔