ممتاز امریکی ماہر نفسیات ڈاکٹر محمد قطب الدین سے خصوصی انٹرویو
عبدالباری مسعود
ایک ایسے وقت میں جبکہ سانس کی وبائی بیماری کورونا وائرس کی دوسری لہر نے ملک میں قیامت صغریٰ برپا کر رکھی ہے جس سے آبادی کا ایک حصہ بڑا حصہ خوف کی نفسیات میں مبتلا ہوگیا ہے۔ لاک ڈاؤن کے سبب لوگ عملاً اپنے گھر کی چہار دیواری میں مقید ہوکر رہ گئے ہیں۔ پچھلے ایک دیڑھ سال سے جب یہ وباء پھوٹی ہے۔ ہر ایک شعبہ حیات کے معمولات بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ اس پر ستم بالائے ستم یہ کہ سوشیل میڈیا پر بن مانگے قسم قسم کے نسخوں اورمشوروں کی بھرمار ہے، اس سے اچھے بھلے آدمی کا سر چکرا جاتا ہے۔ اس پس منظر میں اگر لوگوں کو مناسب اور صحیح رہنمائی نہ ملے تو یہ امر فطری ہے، ان کی ذہنی پریشانیاں کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی جائے گی۔ وہ ذہنی تناؤ اور الجھن کا شکار ہوجائیں گے۔ آج اس کے مظاہر ہر سو نظر آئیں گے۔ خاص طور سے ان خاندانوں میں جن کا کوئی نہ کوئی فرد اس بیماری کا شکار ہوکر لقمہ اجل بنا ہے۔ ایسی آبادی کو خوف کی نفسیات سے باہر نکالنا اور صحیح رہنمائی فراہم کرنا اس وقت ایک اہم انسانی فریضہ ہے کیونکہ معمول کی زندگی کو بحال ہونے میں کتنا وقت لگے گا، اس کی پیش قیاسی کرنا مشکل ہے۔
اس وباء سے پیدا نفسیاتی امراض اور موجودہ نامساعد حالات سے کیسے مقابلہ کیا جائے؟ اس بارے میں راقم نے امریکہ کے مشہور و معروف نفسیات کے معالج
(Psychiatrist)
پروفیسر ڈاکٹر محمد قطب الدین سے خصوصی انٹرویو لیا۔ ویسے ڈاکٹر قطب الدین کا تعلق حیدرآباد (دکن) سے ہے مگر وہ اب امریکہ کے شہری ہیں اور ایک امریکی یونیورسٹی میں تدریس کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ انہوں نے ممتاز دانش گاہوں سے نفسیات میں ایم ڈی، پی ایچ ڈی ڈگریاں حاصل کی ہیں اور ایک کامیاب معالج کی حیثیت سے دنیا بھر میں اپنی ایک منفرد شناخت بنائی ہے۔ وہ اَفمی یا
American Federation of Muslims of Indian Origin (AFMI)
کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔
جب راقم نے سوال کیا کہ موجودہ حالات کا انفرادی اور اجتماعی سطح پر کس طرح مقابلہ کرنا چاہئے؟ وہ گویا ہوئے کہ دنیا میں یہ پہلا موقع نہیں ہے جب وباء پھوٹ پڑی ہے، اس سے پہلے بھی وبائیں آتی رہی ہیں۔ انسانی تاریخ نے ماضی میں درجنوں وباؤں کو ریکارڈ کیا ہے اور مستقبل میں بھی یہ آتی رہیں گی۔ یہ عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ دنیا میں ہر 100 سال، 50 یا 30 میں ایک مرتبہ وباء پھوٹ پڑتی ہے۔ یہ انسانی زندگی کا ایک حصہ ہے۔ موجودہ وباء سے قبل 1918ء میں اسپینی فلو کی وباء نے لاکھوں جانوں کو تلف کیا تھا۔ ڈاکٹر محمد قطب الدین کے مطابق اس نادیدہ جراثیم یا وائرس سے پھیلنے والی وباء سے تحفظ کا سب سے موثر ہتھیار احتیاطی تدابیر ہی ہیں۔ ایسے حالات میں احتیاط ہی زندگی سے اور غفلت موت کا سبب بن سکتی ہے۔ جب پوچھا گیا کہ آبادی کا ایک خاصا بڑا حصہ خوف کی نفسیات میں مبتلا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس سے گھبرانے یا خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ اگر انسان خوف زدہ ہوتا ہے تووہ ذہنی اعتبار سے کمزور ہوجاتا ہے۔ خوف اور گھبراہٹ کی وجہ سے ذہن میں قوت مدافعت کم ہوجاتی ہے۔ قوت مدافعت کم ہونے سے نفسیاتی طور پر اضطراب آمیز کیفیت پیدا ہوتی ہے جس سے انسان کا جسمانی نظام کمزور ہوتا ہے اور اس پر علاج کا اثر نہیں ہوتا۔ ان کے نزدیک اس سلسلے میں سب سے پہلی ضرورت یہ ہے کہ ہم اپنے دماغ کو پرسکون حالت میں رکھیں اور یاد رکھیں کہ کورونا کوئی جان لیوا اور لاعلاج بیماری نہیں ہے۔ اس بات پر بھی نظر ڈالیں کہ لاکھوں لوگ اس سے مکمل صحت یاب ہورہے ہیں۔ مرنے والے والوں کی تعداد محض مٹھی بھر ہوتی ہے، جہاں آپ نے حوصلہ کھو دیا، وہیں آپ نے مدافعتی نظام کو کمزور کرنا شروع کردیا۔ اس لئے پرسکون رہیں، کسی بھی گھبراہٹ کا شکار نہ ہو۔ اس مرض پر احتیاط اور موثر علاج سے فتح پائی جاسکتی ہے۔
خوف کی نفسیات کا حل
جب یہ پوچھا گیا کہ افواہوں کی وجہ سے لوگوں پر خوف و دہشت طاری ہورہا ہے وہ خود کو اس مرض میں مبتلا سمجھنے لگے ہیں، اس خوف کی نفسیات سے انہیں کیسے باہر نکالا جاسکتا ہے؟ ڈاکٹر قطب الدین نے کہا کہا کہ یہ بات صحیح ہے کہ لوگ خوف کی نفسیات کا شکار ہورہے ہیں کیونکہ وہ خبروں میں اور ٹی وی پر مسلسل وباء کے متعلق چیزیں دیکھ رہے ہیں جس سے ان میں مایوسی پیدا ہوتی ہے مگر اسلام نے تین اصولی باتیں کہی ہیں۔ مایوسی کفر ہے، قناعت کریں اور خوش و خرم رہیں۔ پھر بھی کوئی اس نفسیات سے باہر نہیں آتا ہے تو وہ اپنے مقام پر برسرخدمت ماہر نفسیات سے رابطہ قائم کرے۔ ایسا شخص مجھ سے بھی رابطہ کرسکتا ہے۔ کورونا وائرس پر روشنی ڈالتے ہوئے پروفیسر قطب الدین نے کہا کہ اس مرض میں عمل تنفس کا نظام متاثر ہوتا ہے جس میں انسان کے پھیپھڑے خراب ہوجاتے ہیں۔ پھیپھڑوں کو طاقتور بنانے کیلئے انسان کو چاہئے کہ وہ ورزش کریں جبکہ اعصابی نظام کو مضبوط بنانے کیلئے خود کو طاقتور تصور کرنا چاہئے۔ قلب کو بہتر اور طاقتور بنانے کیلئے مقوی غذائیں کھائیں تاکہ دل قوی اور مضبوط ہو۔ کورونا سے بچنے اور اسے بھگانے کا یہ نسخہ کیمیاء ہے کہ آپ اپنے دل و دماغ اور پھپھڑوں کو تندرست و توانا رکھیں۔ یہ وائرس اُلٹے پاؤں بھاگ جائے گا۔
نوجوانوں کا کردار
اس وباء کے پھیلاؤ اور تدارک دونوں میں نوجوانوں کا اہم رول ہے۔ ڈاکٹر محمد قطب الدین کے بموجب چونکہ نوجوانوں کی اکثریت گھروں سے باہر نکلتی ہے۔ اس سے وائرس کے پھیلنے کا احتمال بڑھ جاتا ہے چنانچہ گھر کے بڑوں کو چاہئے کہ وہ اپنے نوجوان بچوں کو ضرورت کے تحت ہی باہر جانے دیں۔ انہوں نے اس اہم نکتہ کو اجاگر کیا کہ نوجوانوں میں قوت مدافعت زیادہ ہوتی ہے چنانچہ ان پر یہ وائرس اثر نہیں کرتا تاہم ان کی غفلت کی وجہ سے گھر میں موجود بچے، بزرگ اور معمر افراد متاثر ہوسکتے ہیں لہذا نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ گھر میں موجود بچوں اور بڑوں کا خیال کرتے ہوئے احتیاط برتیں۔
سوشیل میڈیا سے اجتناب
ایک ایسے وقت میں جب ہر طرف سوشیل میڈیا کا زور اور بول بولا ہے اور ہر کوئی شخص اپنے مشورہ اور تجربہ سب لوگوں پر تھوپنا چاہتا ہے۔ ایسے میں کیا کرنا چاہئے؟ اس بارے میں ڈاکٹر قطب الدین کہتے ہیں کہ قسم قسم کے مشوروں اور گمراہ کن نسخوں پر کوئی توجہ نہیں چاہئے۔ اپنے طور پر دوا یا علاج (سیلف میڈیسن) سے اجتناب کرنا چاہئے کیونکہ یہ خطرہ سے خالی نہیں ہے۔ ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر خود اپنی جانب سے علاج کرنا ضرر رساں ثابت ہوسکتا ہے۔ اسی طرح کسی بھی افواہ کو کسی ماہر کی تصدیق کے بغیر آگے نہ بڑھائیں اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ سوشیل میڈیا پر آنے والے کسی بھی نسخہ کو آزمانے سے قبل اپنے ڈاکٹر سے ضرور مشورہ لیں۔ ورنہ نیم حکیم خطرے جان کی کہاوت صادق آجائے گی۔
زندگی کا راز مثبت سوچ
ڈاکٹر قطب الدین نے کہا کہ انسان اپنے بہترین اور کامیاب مستقبل کی سوچ سے اپنے اندر مثبت سوچ و فکر پیدا کرسکتا ہے۔ یہ مثبت سوچ
(Positive Thinking)
ہی انسان میں قوت مدافعت و مزاحمت پیدا کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ انسان کو خوش آئند مستقبل
Futuristic
کی خواہش رکھنی چاہئے اور پُرامید
Optimistic
ہونا چاہئے۔ جس کے ذریعہ وہ اس طرح کے حالات کا موثر انداز سے مقابلہ کرسکتا ہے۔ خوف کی نفسیات میں مبتلا ہونے سے ذہنی خلاء پیدا ہوتا ہے۔ اس خوف کو لاحول ولا قوۃ الاباللہ کا ورد کرکے دور کیا جاسکتا ہے۔ یہ آپ کو سکون و طمانیت فراہم کرے گا۔ ہم کیلئے اپنے دماغ کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ جو مثبت سوچ سے ہی ممکن ہے اور دعائیں بھی انسان کے اندر روحانی یعنی ایک قسم کی طاقت پیدا کرتی ہیں جو ایسے حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے اس کے جسم میں قوت و توانائی فراہم کرتی ہے۔ مثبت سوچ، خوش مزاجی، ورزش اور تغذیہ بخش غذا کے استعمال میں اچھی زندگی کا راز پنہاں ہے۔
ٹیکہ (ویکسین) کی افادیت
ٹیکہ کاری کے حوالے سے جو ہچکچاہٹ پائی جاتی ہے، اس بابت ڈاکٹر نے قطب الدین نے کہا کہ یہ ضرور لگوانا چاہئے۔ میں نے اپنی شریک حیات کے ہمراہ اس بیماری کے انسدادی ٹیکہ لگوایا ہے۔ ٹیکے کے بارے میں جو غلط فہمیاں پھیلائی گئی ہیں، اس پر توجہ نہ دیں۔ بصورت دیگر آپ سازش کا حصہ بن جائیں گے۔ ٹیکہ قوت مدافعت میں اضافہ کرتا ہے جس سے اس وائرس سے لڑنے میں مدد ملتی ہے۔
ان کے بقول ٹیکہ کونسل کشی یا مسلمانوں کو کمزور کرنے کی سازش قرار دینا دراصل کمزور سوچ اور تعصب کی علامت ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کورونا نے کسی ایک نسل، مذہب اور قوم کو متاثر نہیں کیا ہے بلکہ اس کی زد میں مسلمان، عیسائی، ہندو غرض یہ کہ تمام قومیں، امیر و غریب سب آرہے ہیں چنانچہ ٹیکہ حوالے سے اس طرح کی گمراہ کن باتیں پھیلانا نری حماقت اور بیوقوفی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ علاوہ ازیں کووڈ کے آداب کا بھی پورا پورا خیال رکھا جائے جن میں ماسک کا استعمال، سماجی فاصلہ رکھنا اور صفائی پر توجہ دینا وغیرہ شامل ہیں۔ بلاشبہ ہندوستان دنیا میں واحد ملک ہے جو اس وقت صحت کے ایک سنگین بحران سے گزر رہا ہے، جس نے اچھے اچھوں کے ہوش اُڑا دیئے ہیں۔ قطب الدین کے بقول ان حالات کا مقابلہ اسی صورت میں کیا جاسکتا ہے جب ہم اپنے دماغ سے منفی سوچ اور فاسد خیالات ختم کردیں۔
(Weed out Negative Thinking and Toxic Thoughts) ۔
منفی سوچ سے مراد انسانی دماغ میں پنپنے والے وہ برے اور فاسد خیالات ہیں جو ناکامی اور مایوسی کا احساس کراتے ہیں۔ اگر ایسے خیالات دماغ میں گھر کرتے ہیں تو فوراً انہیں کھرچ دینا چاہئے۔ اپنے ذہن کو مثبت سوچ کی طرف مائل کرنا چاہئے۔ اپنے عزائم کو کوہ ہمالیہ کی طرح اتنا بلند کرنا چاہئے کہ کوئی بھی چٹان اس سے ٹکراکر پاش پاشاہ ہوجائے اور ہمیں اپنی زندگی کو شاعر مشرق علامہ اقبالؔ کے اس شعر کے قالب میں ڈھالنا چاہئے۔
تو اسے پیمانہ امروز و فرد اسے نہ ناپ
جاوداں پیہم رواں ہر دم جواں ہے زندگی
[email protected]