کورونا کی پکار ’’زندہ ہے وہی جس کا کردار ہے سلامت‘‘

   

محمد نصیر الدین
کورونا نے دنیا بھر کو اپنے مہلک اثرات سے خوف و دہشت اور حیرت و تردد میں مبتلا کردیا ہے، دنیا کی ساری رونقیں، مصروفتیں، کاروبار اور روزمرہ زندگی کم و بیش مفلوج ہوچکی ہیں !! دنیا بھر کے سائنسداں، ڈاکٹرز، اطبا اور اہل تحقیق کرونا کے اسباب اور وجوہات کو تلاش کرنے اور اس کی ویکسین کی تیاری کے لئے رات دن لگے ہوئے ہیں تاکہ انسانوں کو اس نئی بیماری کی ہلاکت خیزی سے راحت دلائی جاسکے !!
کورونا کی خوف ناکی اور ہلاکت خیزی نے حیات و ممات کی حقیقت کو پھر سے انسانیت کے سامنے عیاں کروایا ہے۔ کب، کون، کہاں اور کیسے رخت سفر باندھ لے کسی کو پتہ نہیں ہے روز و شب اپنوں اور دیگر کی اطلاعات ملتی جارہی ہیں، افسوس اور رنج و ملال کے بیچ پھر نئی اطلاعات ملنے لگتی ہیں !! انسانی تاریخ میں اس طرح کے واقعات سابق میں شاید ہی وقوع پذیر ہوئے ہوں !! سماج میں ایک معتدبہ طبقہ ایسا ہے جن کو دنیا میں عیش و عشرت و آرام و آسائش کے ہر قسم کے سامان مہیا ہیں، عالیشان محلات، شاندار چم چماتی فراٹے بھرتی کاریں، فارم ہاوز کی شکل میں عشرت کدے، طعام و شرب کی ہر طرح کی لذتیں، رہن سہن کے تمام عمدہ سامان لیکن کورونا نے انہیں بھی انجانے خوف میں مبتلا کردیا ہے، انہیں اپنے خوابوں کی دنیا اور اسباب عیش و عشرت سے محروم ہونے کا انجاناسا خوف ستارہا ہے، چاہے ان کا تعلق کسی مذہب، فرقہ اور طبقہ سے کیوں نہ ہو، وہ کسی مسیحا کے منتظر ہیں کہ کوئی انہیں کچھ چین و سکون اور امید کا راستہ دکھلائیں، انہیں چین کی نیند سونے کے قابل بنائیں ان کے اوسان کو خطا ہونے سے بچائیں لیکن ان کو یہ حقیقت کون بتائے کہ ’’پلٹو اپنے رب کی طرف‘‘ کہ یہی راہ انہیں چین سکون اور راحت و اطمینان بہم پہنچاسکتی ہے۔

انسانی سماج میں کچھ لوگوں کو ملی، سماجی اور سیاسی اثر و رسوخ، طاقت اور قوت حاصل ہوتی ہے خالق کائنات جس کو چاہتا ہے اپنی مرضی اور فضل سے یہ انعام عطا کرتا ہے تاکہ وہ بندوں کی خدمت کریں، کمزوروں، مظلوموں، بچھڑے اور محروم طبقات کی ضروریات کو پوری کریں، مظلوموں مجبوروں اور بے سہارا افراد کی دبی چیخوں کو حکام تک پہنچائیں اور ان کے مسائل و مشکلات اور پریشانیوں اور تکالیف کو دور کرنے کی سعی و جدوجہد کریں اور معاشرہ میں انصاف کو قائم کرنے کی کوشش کریں !! کورونا انہیں یاد دلاتا ہے کہ کیا انہوں نے ملی سماجی اور سیاسی اقتدار طاقت قوت اور دبدبہ و اثر و رسوخ کو دیانت داری اور رب کی خوشی کے لئے استعمال میں لایا ہے یا دنیا کی چمک دمک جمع کرنے، دولت و شروت سمیٹنے، بینک بیالنس میں اضافہ کرنے، حواریوں کے ذریعہ معاشرہ میں اپنی من مانی چلانے، مخالفین کو ختم کرنے، اختلاف رائے رکھنے والوں کو رسوا کرنے، اقتدار سے مل کر معاملتیں کرنے، ملت کی ہمدردی اور مسائل کی آڑ میں اپنی ذاتی، خاندانی اور پارٹی و جماعتی مفادات کو پورا کرنے میں لگے ہیں؟ ایسے قائدین، رہنما اور رہبر ان ملت کو فرعون کے اقتدار، قارون کے خزانے اور نمرود کے غرور و تکبر سے عبرت پذیری اور نصیحت حاصل کرنے کا یہ بہترین موقع ہے ورنہ وہ دن دور نہیں جب اللہ کے غضب اور غیض کا وہ بھی شکار ہوسکتے ہیں اور پھر ان کا نام شہرت اور دبدبہ تاریخ کے سیاہ حرفوں میں شیش ہو جائے گا لہذا ’’پلٹو اپنے رب کی طرف‘‘۔

دین کی اشاعت اور فروغ کے لئے ملک میں کئی ایک دینی و مذہبی جماعتیں، تنظیمیں اور انجمنیں سرگرم عمل ہیں جو کئی ایک مقدس و متبرک مقاصد کو لیکر معاشرہ اور سماج میں متحرک ہیں۔ حصول مقاصد کے لئے وہ اہل خیر سے زکوۃ، صدقات اور عطیات بھی حاصل کرتے ہیں اور اپنے اداروں، جماعتوں اور تنظیموں کے لئے عالیشان دفاتر بھی تعمیر کرتے ہیں، تنظیموں کی کارکردگی کو فائی اسٹار کلچر میں بھی ڈھال لیا لیکن تنظیموں کے مقاصد اور نصب العین کے حصول کی کیا کیفیت ہے؟ کتنے غیر مسلم بھائی آغوش دین میں داخل ہو رہے ہیں، علم و تحقیق کے نت نئے میدانوں میں اسلامی تعلیمات کی اشاعت کا کیا حال ہے۔ نت نئے حیات انسانی کے مسائل میں اسلامی حل کو ملک اور اہل ملک کے سامنے پیش کرنے کی کیفیت کیا ہے؟ معاشرہ میں اسلامی کردار سازی، ایمان و عمل کی کیفیت، حسن اخلاق اور حسن عمل کے نمونوں کا کیا حال ہے؟ مذہبی اور دینی جماعتوں کے ذمہ داروں کو اس بات کا جائزہ لینا چاہئے کہ مقاصد کے حصول میں کتنی سنجیدگی اخلاص اور ثابت قدمی ہے یا پھر کچھ خدانخواستہ ایسا ہوگیا کہ یہ ادارے اور تنظیمیں چند لوگوں کو روزگار دینے کا ذریعہ بن گئے ہوں، ذمہ داران کو عیش و عشرت و آرام و آسائش پہنچانے کا ذریعہ بن گئے ہوں، خدانہ کرے اگر یہ ایسا ہے تو پھر یہ اللہ سے اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اور اس کے دین کے ساتھ بدترین خیانت ہوگی لہذا کورونا یاد دلاتا ہے کہ ’’پلٹو اپنے رب کی طرف‘‘
کورونا کی ہلاکت خیزی اور دہشت میں ان لوگوں کے لئے بھی بہترین سبق ہے جنہوں نے اپنے اسلاف کی آرام گاہوں کو اپنے مریدین کے تعاون سے حصول دنیا اور حصول عیش و عشرت کا ذریعہ بنالیا ہے۔ اسلاف کی آرام گاہوں کو معاشرہ اور سماج میں اپنی حیثیت بنانے، اپنی سماجی مذہبی اور دینی شناخت بڑھانے اور معاشرہ میں اپنا مقام عزت اور شہرت اونچا کرنے کے لئے لگے ہوئے ہیں۔ ان محترم حضرات کو کورونا یاد دلاتا ہے کہ آخر یہ کونسے اعمال ہیں جو رب کی رضا والے ہیں؟ کیا ان اعمال کے لئے قال اللہ و قال الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سند موجود ہے؟ کیا انمحترم ہستیوں کے لئے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ وہ اللہ کی خالص رضا اور خوشنودی کے حصول کے لئے اللہ کی طرف رجوع ہوں اور اپنے مریدین اور چاہنے والوں کی زندگیوں میں بھی اللہ کی حیثیت اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا عشق پیدا کریں، کورونا انہیں بھی اپنے رب کی طرف پلٹنے کا درس دیتا ہے !!

کاش مذکورہ مندرجات اور گذارشات پر ملت کا ہر ہر فرد سنجیدگی اور اخلاص سے غور کرے اور کورونا کے چلتے اصلاح ذات اور احوال کی کوشش کرے، اگر اب بھی ملت نہ جاگے گی تو اس سے بڑھ کر دنیا و آخرت کی محرومی و نقصان کچھ نہیں ہوسکتا۔ ’’پلٹو اپنے رب کی طرف‘‘ قرآن نے واضح طور پر زندگی کی حقیقت سے پردہ اٹھادیا ہے۔’’ہر متنفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے اور تم کو قیامت کے دن تمہارے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا جو شخص جہنم کی آگ سے بچ گیا اور جنت میں داخل کیا گیا وہ کامیاب ہوگیا اور دنیا کی زندگی تو دھوکہ کا سامان ہے‘‘۔ (آل عمران ۱۸۵)
سانسوں کا تسلسل نہیں جینے کی علامت
زندہ ہے وہی جس کا ہے کردار سلامت