بی آر ایس قیادت کی توجہ پنچایت چناؤ پر، گریجویٹ نشست کانگریس کیلئے وقار کا مسئلہ، آئندہ ماہ کونسل کی 5 نشستوں کا چناؤ
حیدرآباد۔/12 فروری، ( سیاست نیوز) تلنگانہ کی اصل اپوزیشن بی آر ایس نے قانون ساز کونسل کی تین نشستوں کے انتخابات سے دوری اختیار کرتے ہوئے ایک طرف پارٹی کیڈر کو اُلجھن میں مبتلاء کردیا تو دوسری طرف کانگریس اور بی جے پی حلقوں میں نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ ٹیچرس زمرہ کی 2 اور گریجویٹ زمرہ کی ایک ایم ایل سی نشست کے چناؤ کی مہم جاری ہے اور 27 فروری کو رائے دہی مقرر ہے۔ بی آر ایس نے تینوں نشستوں کے چناؤ سے دوری اختیار کرلی ہے جس کے نتیجہ میں سیاسی حلقوں میں یہ بحث چھِڑ گئی کہ کونسل کے چناؤ میں بی آر ایس کی تائید کس کے ساتھ رہے گی۔ کانگریس اور بی جے پی دونوں نے کونسل کی تینوں نشستوں پر کامیابی کیلئے مساعی شروع کردی ہے۔ بی جے پی تینوں نشستوں پر مقابلہ کررہی ہے جبکہ کانگریس نے ٹیچرس زمرہ کی نشستوں پر ٹیچرس تنظیموں کے امیدواروں کی تائید کا فیصلہ کیا ہے جبکہ گریجویٹ زمرہ کی واحد نشست کیلئے نریندر ریڈی کو امیدوار بنایا گیا۔ اسمبلی اور لوک سبھا انتخابات میں شکست کے بعد بی آر ایس قیادت نے پارٹی کے استحکام پر توجہ مرکوز کی ہے۔ ذرائع کے مطابق بی آر ایس قیادت نے پنچایت راج اور مجالس مقامی کے چناؤ پر توجہ مرکوزکرلی ہے تاکہ اسمبلی چناؤ کے بعد پہلی مرتبہ مقامی سطح پر پارٹی کا بہتر مظاہرہ ہو۔ قائدین کا احساس ہے کہ اگر کونسل کے انتخابات میں شکست ہوتی ہے تو اس سے کارکنوں کے حوصلے پست ہوں گے اور مجالس مقامی کے چناؤ میں پارٹی کے امکانات متاثر ہوسکتے ہیں۔ پارٹی قائدین کے ساتھ مشاورت کے بعد سابق چیف منسٹر کے سی آر نے اس فیصلہ کی اطلاع دی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ نظام آباد ، کریم نگر اور میدک کے پارٹی کیڈر نے ٹیچرس اور گریجویٹ نشستوں پر مقابلہ کا مشورہ دیا ہے۔ مجالس مقامی کے انتخابات کے علاوہ بی آر ایس کو قانون ساز کونسل میں ایم ایل اے کوٹہ کی ایک نشست پر کامیابی کی فکر ہے۔ آئندہ ماہ 5 کونسل نشستوں کیلئے انتخابات کا امکان ہے جو ارکان اسمبلی کے ووٹ سے منتخب ہوں گے۔ بی آر ایس عددی طاقت کے اعتبار سے کونسل کی ایک نشست پر کامیابی کے موقف میں ہے لیکن اگر 10 منحرف ارکان پارٹی وہپ کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو ایک نشست بھی حاصل نہیں ہوگی۔ ایسے میں بی آر ایس قیادت نے ایم ایل اے کوٹہ کی ایم ایل سی نشست پر مقابلہ کے بارے میں تاحال کوئی حکمت عملی تیار نہیں کی ہے۔ پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ کریم نگر، عادل آباد، میدک اور نظام آباد میں پارٹی کا موقف مستحکم نہیں اور گریجویٹ نشست پر کامیابی کیلئے نوجوانوں کے ووٹ حاصل کرنا آسان نہیں ہوگا۔ ایک طرف گریجویٹ اور ٹیچر نشستوں کے ایم ایل سی انتخابات اور دوسری طرف پنچایت راج اداروں کے چناؤ کے درمیان بی آر ایس نے مجالس مقامی کے چناؤ کو ترجیح دی ہے۔ اسی دوران بی آر ایس کے سابق وزیر ونود کمار نے کہا کہ پارٹی ابتداء ہی سے گریجویٹ نشست پر مقابلہ میں سنجیدہ نہیں ہے اور گریجویٹ رائے دہندوں کے ناموں کی شمولیت کیلئے کوئی مہم نہیں چلائی گئی۔40 رکنی قانون ساز کونسل میں کانگریس ارکان کی تعداد 6 ہے جبکہ بی آر ایس کے 9 ارکان نے کانگریس میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے تعداد کو15 تک پہنچادیا ہے۔ کانگریس میں شمولیت اختیار کرنے والے بی آر ایس ارکان نے کونسل کے صدرنشین سکھیندر ریڈی بھی شامل ہیں۔ گریجویٹ نشست کا الیکشن کانگریس پارٹی کیلئے وقار کا مسئلہ بن چکا ہے کیونکہ اس نشست پر کانگریس کے جیون ریڈی منتخب ہوئے تھے ان کی جگہ کانگریس نے تعلیمی اداروں کے سربراہ نریندر ریڈی کو ٹکٹ دیا ہے۔ تلنگانہ میں 12000 گرام پنچایتوں کے انتخابات آئندہ ماہ منعقد ہوسکتے ہیں جس میں 1.67 کروڑ رائے دہندے اپنے ووٹ کا استعمال کرتے ہوئے کانگریس، بی آر ایس اور بی جے پی کی قسمت کا فیصلہ کریں گے۔538 ضلع پریشد اور 5817 منڈل پریشد کے انتخابات بھی زیر التواء ہیں۔ ریاست میں 9 میونسپل کارپوریشنوں اور 120 میونسپلٹیز کے انتخابات ریاست کی حقیقی سیاسی صورتحال کی تصویر پیش کریں گے۔1