کون ایک مضبوط لیڈر چاہتا ہے ؟

   

پی چدمبرم

ایک امریکی محاورہ ہے جو کچھ اس طرح ہے کہ جب راستے مشکل ہوجاتے ہیں تو مضبوط و مستحکم لوگ چل نکلتے ہیں۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ ’ مشکل ‘ کیا ہے ۔ کیا یہ کئی برسوں تک اقتدار پر رہنے کے بعد سبکدوش ہوجانا مشکل ہوتا ہے ۔ ہٹلر میری پیدائش سے پہلے کا ہے ۔ بچپن سے جوانی اور جوانی سے آگے بڑھتے ہوئے مجھے یہ دیکھ کر مایوسی ہوتی ہ جواہر لال نہرو کے قریبی دوست فراخدل سے سخت لیڈرس بن گئے تھے ۔
Kwame Nkrumah‘
جوزف بروز ٹیٹو ‘ جمال عبدالناصر اورسوکارنو ۔ ان میں ہر ایک نے اپنے ملک میں آزادی کی جدوجہد کی قیادت کی تھی اور انہیں عوامی ووٹ سے منتخب کیا گیا تھا ۔ لوگ انہیں پسند کرتے تھے ۔ تاہم بالآخر وہ سخت اور مشکل ہوگئے اور انہوں نے جمہوریت اور خود اپنی روایات کو دفن کردیا ۔
جواہر لال نہرو پنچ شیل معاہدہ کے دستخط کنندگان میں واحد استثنی تھے ۔ ان کی وزارت عظمی میں ہر الیکشن چاہے وہ 1952 ہو ‘ 1957 ہو یا 1962 ہو حقیقی معنوں میں جمہوری الیکشن تھا ۔ ان کی انتخابی تقاریر جمہوریت کے اسباق میں ہے ۔ ان کی تقاریر سننے والوں کی اکثریت انگریزی نہیں سمجھتی تھی لیکن انہیں احساس ہوتا تھا کہ وہ جمہوریت کی بات کر رہے ہیں۔ سکیولر ازم کی بات کر رہے ہیں‘ وہ قوم کی تعمیر کے مشکل نشانہ کی بات کر رہے ہیں ‘ غربت کے خاتمہ کی بات کر رہے ہیں اور حکومت کے رول کی بات کر رہے ہیں۔ ایسی ہی کئی نکات تھے ۔ نہرو ایک پسندیدہ لیڈر تھے ۔ وہ کبھی مشکل یا سخت نہیں بنے ۔
آج کی دنیا سخت اور مضبوط لیڈروں سے بھری پڑی ہے ۔ اگر آج آزادانہ اور منصفانہ انتخابات منعقد ہوں تو ان میں کوئی بھی منتخب نہیں ہو پائیگا ۔ اہم ترین مضبوط لیڈروں میں برازیل کے جائر بولسونارو ‘ ترکی کے طیب اردغان ‘ مصر کے عبداللہ السیسی ‘ ہنگری کے وکٹر اوربن ‘ بیلاروس کے الیگزینڈر لوکاشینکو ‘ شمالی کوریا کے کم جون ان اور ایسے ہی درجنوں دوسرے ہیں جو اپنے ملک یا اپنے براعظم کے باہر پہچانے نہیں جاتے ۔ ان سب میں ولادیمیر پوٹن سب سے الگ ہیں۔ وہی حال چین کے ژی جن پنگ کا ہے ۔ دونوں ہی سخت اور مضبوط لیڈرس ہیں اور وہ جب تک زندہ ہیں حکومت کرنا چاہتے ہیں۔ جب میں یہ مضمون تحریرکر رہا ہوں روسی لیڈر بے بس یوکرین پر راکٹس اور بم داغ رہے ہیں ۔ ایک گنتی کے مطابق جملہ 52 ممالک ایسے ہیں جن کی حکومتوں کو ڈکٹیٹر شپ قرار دیا جاسکتا ہے ۔
مسٹر مودی بھی سخت بننے کو ترجیح دیتے ہیں
اترپردیش کی انتخابی مہم میں نریندر مودی نے سخت یا مضبوط لیڈرس کو منتخب کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے ۔ بہرائچ کی ایک ریلی میں مودی نے کہا کہ جب ساری دنیا میں افرا تفری مچی ہوئی ہے ‘ ہندوستان کو طاقتور و مستحکم بننے کی ضرورت ہے اور مشکل وقتوں کیلئے ایک مضبوط و سخت لیڈر کی ضرورت ہے ۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ بہرائچ اترپردیش کے ان تین اضلاع میںایک ہے جہاں غربت کا تناسب 70 فیصد سے زائد ہے ۔
نریندر مودی واضح طور پر چاہتے ہیں کہ اترپردیش میں بی جے پی لیڈر مسٹر آدتیہ ناتھ کو دوبارہ منتخب کرلیا جائے کیونکہ آدتیہ ناتھ ایک سخت لیڈر ہیں اور ان کی مشکل وقتوںمیںضرورت ہوسکتی ہے ۔ آدتیہ ناتھ لا اینڈ آرڈر نافذ کرنے میں یقین رکھتے ہیں اور اپوزیشن کو پسند نہیں کرتے ۔ انکاؤنٹرس کی سرکاری منظوری ہے ۔ کسی مجرم کو قانون کی عدالت میں لانے اور وہاں سے سزا دلانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اسے کسی انکاؤنٹر میں ماردیا جاسکتا ہے ۔ یہ ایک رپورٹ انڈین ایکسپریس میں 13 جولائی 2021 کو شائع ہوئی تھی ۔ مارچ 2017 سے جون 2021 تک 139 مجرمین کو پولیس انکاؤنٹرس میں ہلاک کردیا گیا جبکہ 3,196 افراد زخمی ہوئے ۔
آدتیہ ناتھ کا ایک پسندیدہ لفظ ’ بلڈوزر ‘ ہے ۔ 27 فبروری 2022 کو سلطان پور ضلع میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے مسٹر آدتیہ ناتھ نے کہا کہ ہم نے یہ مشین تیار کی ہے جو ایکسپریس ویز بناتی ہے اور مافیا اور مجرمین سے بھی نمٹتی ہے ۔ جب میں یہاں آ رہا تھا میں نے چار بلڈور دیکھے ۔ میںسمجھتا ہوں کہ یہاں پانچ اسمبلی حلقے ہیں ۔ ہر حلقے میں ایک بلڈوزر بھیجا جائیگا اور پھر سب کچھ ٹھیک ہوجائیگا ( انڈیا ٹوڈے ) ۔ اترپردیش میں عمارتیں ڈھانے اور تخلیہ کروانے (مبینہ طور پر غیر قانونی ) کیلئے بلڈور کا استعمال کرنے کسی عدالتی حکم یا قانونی کارروائی کی ضرورت نہیں ہے ۔
آدتیہ ناتھ اتنے طاقتور ہیں کہ کیرالا سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی مسٹر صدیق کپن کو 5 اکٹوبر 2020 سے جیل میں رکھا گیا ہے ۔ وہ محض ہاتھرس عصمت ریزی و قتل کیس کی رپورٹنگ کر رہے تھے ۔ دی وائر کے مطابق جب سے آدتیہ ناتھ چیف منسٹر بنے ہیں 12 صحافیوں کو ہلاک کردیا گیا ہے ۔ 48 پر حملے کئے گئے ہیں اور 66 کے خلاف مختلف مقدمات درج کرکے گرفتار کرلیا گیا ہے ۔ ایک سخت چیف منسٹر نے اپنی پارٹی کو مجبور کردیا کہ 403 اسمبلی حلقوں میں ایک بھی مسلم امیدوار کو ٹکٹ نہ دے حالانکہ ریاست کی آبادی میں20 فیصد مسلمان ہیں ۔ ایک سخت لیڈر کی قیادت میں اترپردیش غریب ہے ۔ عوام غریب تر ہوگئے ہیں۔ ریاست کے قرض میں گذشتہ پانچ سال میں 40 فیصد کا اضافہ ہوا ہے اور جملہ قرض 6,62,891 کروڑ ہوگیا ہے ۔
نرم اور دانشمند
میںسمجھتا ہوں کہ نرم قائدین بہتر ہیں۔ وہ دانشمند ہوتے ہیں۔ نرم لہجے میں بات کرتے ہیں۔ عوام کی سنتے ہیں۔ اداروں اور قانون کا احترام کرتے ہیں۔ کثرت کو پسند کرتے ہیں۔ عوام میں ہم آہنگی کیلئے کام کرتے ہیں اور خاموشی سے سبکدوش ہوجاتے ہیں۔ وہ عوام کی زندگیوں کو بہتر بناتے ہیں۔ وہ روزگار فراہم کرتے ہیں ‘ بہتر تعلیم اور نگہداشت صحت کی سہولت دیتے ہیں۔ وہ جنگ کے مخالف ہوتے ہیں اور ماحولیاتی تبدیلی کے چیلنجس سے نمٹتے ہیں۔ دنیا میںایسے قائدین ہوئے ہیں اور موجود بھی ہیں۔ بے مثال نیلسن منڈیلا ان میںسے ایک تھے ۔ دوسری مثالوں میںجرمنی کی سابق چانسلر انجیلا مرکیل ‘ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جسنڈا آرڈن ‘ نیدرلینڈ کے وزیر اعظم مارک روٹ اور کچھ دوسرے شامل ہیں۔ میں نہیںجانتا کہ اترپردیش ‘ اترکھنڈ ‘ پنجاب ‘ منی پور ‘ گوا میںکیسے لیڈر کا انتخاب کیا جائیگا لیکن اگر میں ان ریاستوں کا ووٹر ہوتا تو میں ایک نرم اور دانشمند لیڈر کو اپنا ووٹ دیتا ۔