رام پنیانی
ہندوستان میں کورونا وائرس کا پھیلاؤ عروج پر ہے حالانکہ حکومت نے کئی احتیاطی اقدامات کئے ہیں۔ ہندوستان کے بیشتر علاقے اس بیماری میں شدت سے مبتلا ہیں۔ مرکزی حکومت نے کووڈ ۔ 19 کا مسئلہ کافی تاخیر سے اپنے ہاتھ میں لیا ہے۔
فروری کی ابتداء میں عالمی تنظیم صحت نے حکومتوں کو چوکس کردیا تھا دوسری طرف حکومتوں کے خلاف گرما گرمی پیدا ہوگئی تھی کیونکہ وباء کا خطرہ لاحق تھا۔ اس وقت حکومت ہند نمستے ٹرمپ کے انتظام میں مصروف تھی۔ مرکز کی برسر اقتدار پارٹی آپریشن کنول میں مصروف تھی تاکہ مدھیہ پردیش میں کانگریس حکومت کو برطرف کیا جاسکے۔
22 مارچ سے جنتا کرفیو کا فیصلہ کیا گیا اور 24 مارچ سے مکمل لاک ڈاون کا فیصلہ ہوا۔ یہ مسئلہ سنگین طور پر بحث کا موضوع بن گیا۔ ذمہ داری سے فرار حاصل کرنے کے لئے اس کو ایک آسان حدف تبلیغی جماعت کے سمینار (13 تا 15 مارچ) کی صورت میں مل گیا۔ حضرت نظام الدینؒ کے تبلیغی مرکز پر کورونا کے پھیلاؤ کا الزام عائد کیا گیا۔ یقینا اس میں بعض کوتاہیاں تھیں جو سمینار کے منتظمین کی جانب سے اس وقت کی گئی تھیں، ایک ہجوم نے وباء کے دوران جمع ہوکر ایک ناقابل معافی جرم کیا ہے۔
ساتھ ہی ساتھ ہزاروں افراد ہندوستان کے گوشے گوشے سے ’’نمستے ٹرمپ‘‘ تقریب میں اسی وقت آئے ہوئے تھے۔ تقریباً 2 لاکھ افراد اس میں شریک تھے۔ مندر اور مٹھ بھرپور تھے اور لوگ درشن کے لئے بھی اندر جانا مشکل محسوس کررہے تھے۔ یہ تمام افراد تمام ایرپورٹس پر اسکریننگ اور ضروری اجازت کے بعد یہاں آئے تھے۔ اس اقدام کے باوجود ان پر کورونا کے پھیلاؤ کا الزام عائد نہیں کیا گیا۔ واضح طور پر اس کی وجہ حکومت کے سیاسی اقدام کے بارے میں ذہنیت تھی۔ تبلیغیوں کو جو ملک کے مسلم طبقہ سے تعلق رکھتے تھے راکھشیس بناکر پیش کیا گیا۔
ذرائع ابلاغ پر فرقہ پرستی کا الزام عائد کیا گیا کیونکہ ہسٹیریا کے دورہ میں تبلیغیوں پر یہ بیماری پھیلانے کا الزام عائد کیا گیا تھا اور یہ منصوبہ میڈیا پر فرقہ پرستی کے الزام کے ساتھ مکمل ہو گیا۔ کورونا جہاد کی کہانی تیار کی گئی اور مرکز میں کورونا بم دھماکہ کیا گیا جو علاقائی پولیس اسٹیشن کے بہت قریب ہے۔ ذرائع ابلاغ کے ایک گوشہ تک رسائی حاصل کی گئی اسے من مانی طور پر چنا گیا تھا۔ مسلمانوں پر دانستہ طور پر بیماری پھیلانے کا الزام عائد کیا گیا اور انہیں مشترکہ سماجی تفہیم نہ ہونے کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ سماجی زندگی فوری طور پر اثر کرتی ہے مسلم ٹرک ڈرائیور ان مقامات پر ہجوم سے بچنے کے لئے اپنی گاڑیاں چھوڑ کر فرار ہوگئے۔ مسلم ترکاری فروش زدوکوب کا نشانہ بنے۔ کئی مقامات پر انہیں کئی رہائشی علاقوں میں داخل بھی ہونے نہیں دیا گیا۔
بعض تبلیغیوں کو قرنطینہ میں رکھا گیا یا دواخانوں میں شریک کردیا گیا۔ جھوٹی خبریں پھیلانے والوں کی بن آئی تھی۔ اس کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جبکہ یہ افواہ گشت کرنے لگی کہ تبلیغیوں نے نرسوں کو فحش اشارے کئے ہیں اور تھوکا ہے۔ وہ وارڈس میں برہنہ گھوم رہے تھے۔
ان تمام سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ یہ افواہیں اسلاموفوبیا کا نتیجہ تھیں جو پہلے ہی سے ہندوستان میں عروج پر ہے۔ پولیس نے فوری کارروائی شروع کردی۔ ان تمام تبلیغیوں کے خلاف مقدمے دائر کئے گئے جو غیر ملکی تھے۔ مقدمات ویزا کے قواعد کی خلاف ورزی سے متعلق مختلف فقروں کے تحت درج کئے گئے تھے۔ ان پر وباء پھیلانے کا اور اسلام کی تبلیغ کا الزام بھی عائد کیا گیا تھا۔
اس مسئلہ پر چند فیصلوں میں ذرائع ابلاغ اور پولیس کا بھی کردار تنقید کا نشانہ بنا۔ جھوٹی شکایتیں درج کی گئیں اور ذرائع ابلاغ کے تشہیری شعبہ کو بے نقاب کیا گیا۔ بمبئی ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بنچ نے فیصلے میں تبصرہ کیا کہ ریاستی حکومت اور پولیس کے ساتھ ساتھ میڈیا کے رویہ پر تنقید کی ۔
ہائی کورٹ نے واضح طور پر کہا کہ تبلیغیوں کے خلاف کارروائی انہیں کووڈ ۔ 19 کے لئے ’’بَلی کا بکرا‘‘ بنادینے کی کوشش کا ایک حصہ ہے۔ وباء ایک آفت ہے اور اس کا امکان ہے کہ غیر ملکی افراد کو اس لئے چنا گیا کہ انہیں آسانی سے ’’بَلی کا بکرا‘‘ بنایا جاسکتا تھا۔ مندرجہ بالا حالات اور ہندوستان میں وباء کے پھیلاؤ کے موجودہ اعداد و شمار ثابت کرتے ہیں کہ درخواست گذاروں نے موجودہ حالات کو اپنی درخواستوں کا موضوع نہیں بنایا تھا۔
جہاں تک ذرائع ابلاغ پر تنقید کا سوال ہے عدالت نے کہا کہ اس بات کی بڑے پیمانے پر تشہیر کی جارہی ہے کہ اخبارات اور برقی ذرائع ابلاغ غیر ملکیوں کے مخالف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دہلی کے مرکز کو موضوع بنایا گیا ہے۔ یہ ایسی تصویر پیش کرنے کی کوشش تھی کہ کووڈ ۔ 19 وائرس کے ہندوستان میں پھیلاؤ کے لئے غیر ملکی ذمہ دار ہیں۔ واضح طور پر یہ غیر ملکیوں کے لئے احتیاط برتنے کا اشارہ تھا۔ عدالت نے کہا کہ کارروائی بالواسطہ طور پر ہندوستانی مسلمانوں کے لئے بھی انتباہ تھی کہ وہ کسی بھی نوعیت میں ایسی کارروائی نہ کریں اور ہندوستانی مسلمانوں کو تنقید کا نشانہ بنانے کی کوشش نہ کریں۔
نشاندہی کی گئی کہ مسلمانوں کے ساتھ دیگر ممالک کا بھی ربط ہے۔ یہ ظاہر کیا گیا کہ ان کے خلاف اگر کوئی کارروائی کی جائے جس میں غیر ملکیوں اور مسلمانوں کے ساتھ تعصب کا اظہار ہو کیونکہ ان کی سرگرمیوں پر تنقید کی جارہی ہے تو ملک کا نام بدنام ہو جائے گا۔ اس لئے شکایت درج کرتے وقت یا شکایت کو مسترد کرتے وقت اس کا خیال رکھا جانا چاہئے۔ اتفاق کی بات ہے کہ کووڈ ۔ 19 کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو لوگ ان معلومات کو پھیلا رہے ہیں وہ مکمل طور پر متعصب ہیں۔ انہیں بَلی کا بکرا بنانے کے لئے موزوں مسلمانوں کی تلاش ہے۔ یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ گائے کے تقدس کے نام پر بھی ان پر الزام عائد کئے جائیں گے۔ حال ہی میں دہلی کا تشدد ان تمام افراد کو تنقید کا نشانہ بنانے کا بہانہ بن گیا جو حکومت کے سی اے اے ۔ این آر سی اقدام کے خلاف تھے اور احتجاج کررہے تھے۔
جو لوگ اشتعال انگیز تقریریں کرتے تھے جیسے دیش کے غداروں کو (انوراگ ٹھاکر)، احتجاجی مظاہروں میں عصمت ریزی کرنے والے شریک ہیں (پرویش ورما)، ہم ان تمام کو معذور بنادیں گے (کپل مشرا) ان علاقوں میں کثرت سے گھوم پھر رہے تھے جہاں پرامن احتجاجی مظاہرے کئے جارہے تھے اور جن علاقوں کو زیر نگرانی رکھا گیا تھا۔
اسی طرح کا رویہ مختلف قسم کے بم دھماکوں کے سلسلہ میں بھی اختیار کیا گیا جو ملک گیر سطح پر 2006 سے 2008 کے دوران ہوئے تھے۔ مثال کے طور پر حیدرآباد میں مکہ مسجد دھماکہ جس میں کئی مسلم نوجوانوں کو من مانی گرفتار کیا گیا تھا اور انہیں عدالتنے ثبوتوں کے فقدان کی بناء پر رہا کردیا۔
مالیگاؤں دھماکہ کیس بھی اسی قسم کا ہے دھماکہ کی ملزمہ پرگیہ ٹھاکر ضمانت پر رہا کردی گئیں اور رکن پارلیمنٹ بن گئیں۔ عملی اعتبار سے وہ برسر اقتدار پارٹی کی رکن ہیں جس نے متعصبانہ رویہ اختیار کررکھا ہے۔ مذہب کے بہانے چند ارکان تنقید کرتے ہیں اور دیگر کو اکسایا جاتا ہے تاکہ وہ ایک مخصوص مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کی جائیدادوں کو نقصان پہنچائیں۔