یہ ایک بالکل سچا واقعہ ہے،یہ میری آپ بیتی ہے، اس جنگ کی جس سے میں بر سر پیکار رہا، اور بالآخر رب کریم کے رحم وکرم سے اور صرف رحم وکرم سے اس انجان دشمن سے جیت ملی، اللہ نے ہی حوصلہ دیا اور اس نے ایک بار پھر یہ باور کرادیا کہ “اس کا بے پایاں فضل و احسان ہی میرے لیے کافی ہے”۔
انسانی دماغ اللہ کے بنائے ہوئے ڈھانچوں میں سب سے پیچیدہ ہے، یہ مکمل طور پر جسم کے اندر اور باہر قابل ادراک حسی تصورات پر انحصار کرتا ہے، کسی بھی معاملے کو سمجھنے اور حل کرنے کا انحصار اس علم پر ہوتا ہے جو دماغ حاصل کرتا ہے، اور اس علم کا تجزیہ کرنے کی اس کی تجزیاتی صلاحیت پر بھی بہت کچھ دار ومدار ہوتا ہے، یہ سمجھنا مشکل ہے کہ جب دماغ کسی انجان دائرۂ فکر میں، معمول کے فہم وفراست سے بالاتر ہو کر سوچ رہا ہو تو انسانی دماغ کا ردعمل کیا ہوتا ہے ، خاص طور پر جب انسانی ذہن وخیال خود کو تباہی کے دہانے پر لے جاتے ہوئے متضاد اشارے وصول کررہا ہو۔
میں بچپن میں اکثر ہلٹنے اور کروٹیں لینے میں اپنے بستر سے گر جایا کرتا تھا، جب میں بستر پر اپنا جسمانی توازن کھودیتا اور زمین پر جاگرتا تو مجھے ایسا لگتا تھا جیسے میں خود کو کسی درخت، دیوار، چٹان، موٹر کار یا گھوڑے سے گرتا ہوا دیکھ رہا ہوں، یہ حادثے ہمیشہ نہیں رہے، بلکہ اس صورتحال میں بہتری آئی، دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ایک لمحے میں میرا دماغ میرے لیے ایک خیالی لینڈنگ کی تصویر بنا کر فرش پر گرنے کا جواز پیش کرتا تھا، یہ میرے بچپن کی یادوں کا ایک اہم حصہ رہا اور میں نے اکثر اپنے دوستوں کے سامنے انہیں اپنے زر خیز ذہن کے اعداد و شمار کی لاجواب صلاحیتوں سے تعبیر کیا، بے شک ذہنی توانائی کو کھودینا خوفناک بات ہے!
کچھ دن پہلے، مجھے آئی سی یو میں داخل کیا گیا تھا، اس وقت میرے٪ 80 فیصد پھیپھڑے متاثر ہوچکے تھے، مجھے نان انویسیو وینٹی لیٹر (NIV) پر ڈال دیا گیا، اور بھاری اسٹیرائڈز اور خون کو پتلا کرنے والی دوائیں فراہم کی گئیں۔
کووڈ کی وجہ سے میرے پھیپھڑوں میں طیش انگیز “سائٹوکائن اسٹورم” عارضہ، اور اس کے ساتھ تجرباتی ادویہ کی بھاری خوراک کے ساتھ، میرا جسم اور دماغ دونوں بقا کی جنگ میں مصروف رہے، ذہن اس شدید جنگ کو عجیب اور خوفناک تصویری شکل میں پیش کرنے کی کوشش کرتا رہا، کبھی اپنی ہی بے ترتیب گہرائیوں سے نکالتا ہے، یہ تصاویر بہت پریشان کن اور ذہن میں قائم ہیں، جو ذہن ودماغ پر اس طرح مرتسم ہیں کہ محو ہونے کو تیار نہیں، اس ذہنی حالت میں، ان خیالات کو خوشگوار نقشوں سے بدلنا ضروری ہوجاتا ہے، بلا شبہ یہ ایک مشقت طلب ذہنی کام ہے۔
میرا اپنا دماغ تجویز کررہا تھا کہ مجھے اب سانس لینے سے باز آنا چاہئے، جب میں اپنے دماغ کے ساتھ مسلسل گفتگو کرتا رہا اور اپنے دماغ کو بتایا کہ مجھے سانس لینے کے لیے کچھ خرچ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، تو یہی کیفیت تقریباً سارا دن برقرار رہی، کیوں کہ میں اپنی نیند اور شعوری حالت کی درمیانی کیفیت میں تھا۔اس پریشان خیالی کا خاتمہ مشکل تھا؛ لیکن مجھے اس سے مسلسل بر سر پیکار رہنا اور اس پر قابو پانا بھی ناگزیر تھا، جب میں ذکر میں مشغول ہوتا تو اس کیفیت پر قابو پانے کی کوششیں کامیاب ہوتی نظر آتیں، تب شعوری طور پر ، میں نے سوچا کہ مجھے اللہ سبحانہ وتعالی کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کی ضرورت ہے؛ لہذا میں نے کثرت سے درود ابراہیمی پڑھنا شروع کردیا، اس کے باوجود، اس کیفیت کو دور کرنے کے لیے کافی جدوجہد کی ضرورت تھی، بالآخر جب اس پر فتح حاصل کی تو مجھے خوشی اور راحت ملی۔
یہ جیت زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکی، ایک بار پھر ذہن نے انہیں خیالات میں دھکیل دیا، اس بار اور زیادہ شدت کے ساتھ میری داخلی اسکرین پر نئے زاویے بنانے لگا، طرح طرح کی تصویریں ذہن ودماغ میں ابھرنے لگیں، کیا دیکھتا ہوں کہ میرے شناسا لوگوں میں سے دو لوگ ایک دوسرے کو مارنے کی کوشش کر رہے تھے، میرے دماغ کی ہدایات بہت مخصوص تھیں: ایسا لگتا تھا میں ایک کی دوسرے کو مارنے میں مدد کر رہا ہوں، جتنا میں اس جھگڑے کو ختم کرنے کی کوشش کرتا، ایسا لگتا میں اور زیادہ شدت سے ان میں کشتی کروا رہا ہوں، پھر محسوس ہوا کہ مجھے سارے پردے پھاڑنے پڑے، اور پھر کعبہ کے دروازے کو تھامنے کے لیے تیزی سے آگے بڑھا، بعدازاں زور زور سے درود پڑھنے لگا، پھر اس قاتلانہ کشمکش پر قابو پانے کے لیے جدوجہد کرتا رہا۔
اس کے بعد بھی ان قابل فہم لمحوں میں بہت سے دوسرے چھوٹے چھوٹے واقعات ذہن کے پردے پر آتے جاتے رہے، تب تک، میں نے انہیں جلد ہی حذف کرنے کا طریقہ سیکھ لیا تھا، پہلے دن شدت سب سے زیادہ تھی اور دوسرے دن بھی کم نہیں تھی؛ لیکن تیسرے دن کے بعد اللہ کے فضل و کرم سے سب کچھ ختم ہوگیا۔
میرا بیٹا ہر روز پی پی ای سوٹ میں ایک گھنٹہ کے لئے مجھ سے ملاقات کرتا تھا، ان ملاقاتوں کی میرے نزدیک بڑی معنویت تھی، ان ملاقاتوں نے منفی خیالات کے خلاف جنگ جیتنے کے میرے عزم کو مضبوط کیا، ان سے مجھے مثبت خیالات کو برقرار رکھنے کا حوصلہ ملا، میں نے اس وقت اپنے فرزند کے ساتھ کچھ بھی شیئر نہیں کیا تھا، آخر کار یہ میری لڑائی تھی اور میں اسے زیادہ پریشان کرنے کا سبب نہیں بانانا چاہتا تھا، میں پانی یا جوس پینے کے لیے اٹھتا جو وہ لایا کرتا تھا، بیٹے سے ملاقات کے ان لمحوں نے مجھے خوشی کا احساس دلادیا، میرے بیٹے کی موجودگی نے ایک ایسی قوت بہم پہنچائی جس نے مل کر اس جنگ کو جیتنے میں ہماری مدد کی، اس کا فرزندانہ جسمانی لمس مجھے بہت سکون دیتا تھا، میں اس کے آنے کا انتظار کیا کرتا تھا؛ کیونکہ اس سے مجھے یہ محسوس ہوتا تھا کہ میں تنہا نہیں ہوں، دل ہی دل میں یہ خواہش ہوتی تھی کہ وہ تھوڑے زیادہ وقت تک ٹھہر سکے۔
میں نے جو کچھ پایا وہ یہ کہ طبی برادری کوویڈ مریض کے لیے اس کے بالکل برعکس معاملہ کرتی ہے، خاص طور پر صدمے کے ابتدائی دنوں میں، خاندان کے افراد کو ضروری احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے مریض کے ساتھ اچھا وقت گزارنے کی ترغیب دی جانی چاہئے، اس سے مریض اپنی لڑائی کو بہتر طور پر لڑنے کے قابل ہوسکتا ہے نرسنگ عملے کو زیادہ سے زیادہ شفقت برتنے، مریض سے حوصلہ افزائی کی باتیں کرنے، اور انجان دشمن کا بہتر سے بہتر انداز میں مقابلہ کرنے کی تربیت دی جانی چاہئے۔
زیادہ تر لڑائیاں پہلے تین دن کے دوران یا تو جیت لی جاتی ہیں یا تو شکست ہوجاتی ہے، ذہنی کیفیت کے خلاف جسم کا ردعمل اہم ہے: لڑائی یا پرواز؛ افسوس کی بات ہے کہ پرواز کا مطلب جان کی بازی ہارنا بھی ہوسکتا ہے۔
میں اپنے دماغ اور جسم کی حالت کو پیش کرتے ہوئے اپنے ذہن میں موجود اور محفوظ نقوش کی ترجمانی کرر ہوں، میں ان کا واضح طور پر تجزیہ کررہا ہوں، میں نے انہیں شعوری طور پر یاد میں رکھا تاکہ میں ان معلومات کو میرے پیچھے آنے والوں، خاص طور پر کوویڈ میں مبتلا افراد کے فائدے کے لیے شیئر کرسکوں۔
میں ان تمام لوگوں کے لیے دعاگو ہوں جو ہسپتال میں داخل ہیں اور زبردست دباؤ کا سامنا کررہے ہیں تاکہ وہ کامیابی کے ساتھ اس کا مقابلہ کرسکیں اور کامیابی کے ساتھ رب کریم کی بے پناہ رحمتوں کے بھروسے اس سے باہر نکل سکیں۔
میں اپنے اہل وعیال رشتہ دار اور دوست واحباب اور ان تمام لوگوں کامشکور ہوں جنھوں نے میرے حق میں دعاء کی اور میںان تمام کےحق میں دعاء گوہوں کہ اللہ تعالى ان کو جزائے خیر عطاء فرماے