شیخ مجیب الرحمن
کورونا وائرس کے پھیلاو کے لئے کسی ایک فرد، پروگرام یا کمیونٹی کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ حالات اور اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ دنیا میں کووڈ ۔ 19 کیسیس کی تعداد کے لحاظ سے ہندوستان کا تیسرا نمبر ہے۔ آپ کو یاددلادیں کہ 30 جنوری 2020 کو کیرالا میں کورونا وائرس سے متاثر ہونے کا پہلا کیس منظر عام پر آیا تھا اور اب حال یہ ہے کہ یہ وائرس ملک کے تمام ریاستوں میں پھیل چکا ہے، جبکہ ممبئی اور چینائی جیسے شہروں میں کووڈ ۔ 19 کیسیس بڑی تیزی سے بڑھتے جارہے ہیں۔ ان حالات میں اس وائرس کے پھیلنے کے لئے کسی فرد یا کسی طبقہ کو ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اگرچہ کئی سیاسی قائدین بشمول کیرالا، آندھرا پردیش اور مہاراشٹرا کے وزرائے اعلیٰ نے عوام سے اس وائرس کو فرقہ وارانہ رنگ نہ دینے اور اس کے پھیلاو کے لئے کسی مذہب کو ذمہ دار قرار نہ دینے کی اپیل کی ہے، لیکن اس کے پھیلاؤ کے ابتدائی ایام کے دوران مسلمانوں کے خلاف خاص طور پر سوشل میڈیا پر مہم چلائی گئی اور یہ مہم مارچ 2020 کے وسط میں تبلیغی جماعت کے اجتماع کے بعد چلائی گئی اور اس میں شدت پیدا کی گئی۔ اس وقت تبلیغی جماعت کا اجتماع ہندوستان کے پہلے بڑے ہاٹ اسپاٹ کی حیثیت سے منظر عام پر آیا۔ یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ تبلیغی جماعت اور اس کے منتظمین کی کوئی غلطی نہیں تھی، تاہم غلطیوں کا ارتکاب کرنے والوں میں کئی سطح بشمول حکومت اور پولیس بھی شامل رہی، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومت اور پولیس کی غلطیوں کو نظر انداز کردیا گیا اور غلطیوں کا تمام بوجھ تبلیغی جماعت پر لاددیا گیا اور یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ اجتماع منعقد کرنے سے متعلق تبلیغی جماعت کا فیصلہ اس کا ذمہ دار ہے، لیکن ایسا نہیں تھا۔
بڑھتی فرقہ واریت
جان بوجھ کر ایک فرقہ وارانہ مہم شروع کی گئی اور اس میں شدت پیدا کی گئی۔ اس تمام قصہ میں اہم بات یہ ہے کہ کئی مسلم قائدین اور تنظیموں نے جماعت ایپی سوڈ کی مذمت کی۔ یہاں تک کہ ممتاز مسلم تاجرین نے اس عالمی بحران سے نمٹنے کے لئے بطور عطیہ رقم بھی پیش کی لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی ان اچھائیوں کو شاذ و نادر کی حیثیت سے دیکھا گیا یا پھر اسے نظرانداز کیا گیا حد تو یہ ہے کہ کسی بھی ایک مسلمان کی غلطی تمام کمیونٹی کے خلاف مہم کا باعث بن جاتی ہے۔ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کی جزوی وجہ 1980 کے دہے سے ملک میں بڑھتی فرقہ پرستی ہے۔ اس کے علاوہ حالیہ برسوں کے دوران ہندو حقوق سے متعلق تنظیموں کی پروپگنڈہ مشنری بھی زیادہ موثر اور عصری ہوگئی ہے۔
حد تو یہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف تعصب و جانبداری ہندوستانی معاشرہ میں گہرائی کے ساتھ پیوست ہوچکی ہے۔ اسی طرح جس طرح 1930 میں یہودیوں کو نشانہ بنایا گیا ہندوستان میں مسلمانوں کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے اور آج مسلمان ہندوستان میں تعصب و جانبداری کا پہلا نشانہ ہے۔ ہم نے دیکھا کہ دہلی فسادات میں کیا ہوا؟ اور شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) مخالف مظاہرین کے ساتھ ریاست نے کس طرح کا سلوک کیا یہ بھی ہم نے دیکھا ہے، ہم نے یہ بھی بیان سنا ’’جو لوگ لوٹ مار میں ملوث ہیں ان کی ان کے لباس سے شناخت کی جاسکتی ہے‘‘۔ اگر دیکھا جائے تو گاو رکھشکوں کے ہاتھوں مسلمانوں کی ہجومی تشدد میں ہلاکتوں سے لے کر مخالف سی اے اے احتجاجی مظاہروں کے دوران ایک ایسی فضاء تیار کی گئی جو مسلمانوں کے بعض حلقوں اور ہندوستانی ریاست کے درمیان بڑے خسارہِ اعتماد کا باعث بنی خاص طور پر پولیس کی مثال اس ضمن میں دی جاسکتی ہے۔ یہ اس وقت دیکھا گیا جب بعض تبلیغی جماعت کے ارکان نے مبینہ طور پر ریاست کے ساتھ تعاون کرنے سے انکار کردیا۔ اس سلسلہ میں ریاست نے واضح طور پر درخواست کی تھی کہ تبلیغی جماعت کے اجتماع میں شرکت کرچکے لوگ اپنی شناخت ظاہر کریں تاکہ انہیں کورنٹائن میں رکھا جائے۔ ریاست کی یہ درخواست کو سب نے ایک خفیہ ایجنڈہ کا حصہ سمجھا بعد میں حکومت ایک اڈوائزری کے ساتھ سامنے آئی کہ اس عالمی وباء کو کسی بھی مذہب سے نہیں جوڑا جانا چاہئے۔ حکومت کی یہ اڈوائزری اس وقت زیادہ اثر انداز ہوئی جب وہ مسلمانوں اور تبلیغی مرکز کا حوالہ دے رہی تھی۔ اگر دیکھا جائے تو مسلمان بھی وائرس کا اسی طرح شکار بنے جس طرح دیگر مذاہب کے لوگ بنے ۔
پسماندہ کمیونٹی
مسلمان ہندوستان کی نہ صرف سب سے بڑی مذہبی اقلیت ہے بلکہ اس جدید دنیا میں سب سے غریب یا خستہ مالی حالت کی حامل کمیونٹی ہے۔ مسلمان تعلیمی لحاظ سے بھی پسماندہ ہیں۔ مسلمانوں کی اس پسماندگی کو جاری رکھنے میں ہندوستانی ریاست نے چاہے وہ سیکولر اور قوم پرست کے اوتار میں کیوں نہ ہو اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ ایک اور بات بھی ہے کہ مسلم کمیونٹی نے زندگی کے مختلف شعبوں چاہے وہ کھیل کود،موسیقی، آرٹ، سنیما یا حکمرانی ہو بعض بہترین صلاحیتوں کے حامل شخصیتوں کو پیدا کیا ہے۔ ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام سے لے کر ایم ایف حسین، بسم اللہ خان اور ثانیہ مرزا اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ دوسری جانب تبلیغی جماعت کے اجتماع میں جن لوگوں نے شرکت کی وہ بھی اسی کمیونٹی کا حصہ ہیں۔ لیکن وہی لوگ اسلام کے نمائندہ نہیں۔ آج جبکہ ہندوستان میں کورونا وائرس متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے مسلمانوں کو الگ تھلگ کرنے کی بجائے یہ بات اہمیت رکھتی کہ ہم بامقصد اور واجبی رہیں کیونکہ ہمیں بحیثیت ہندوستانی آج کئی ایک چیالنجس کا سامنا ہے۔
نوٹ : شیخ مجیب الرحمن جامعہ ملیہ سنٹرل یونیورسٹی نئی دہلی میں پڑھاتے ہیں۔