محمد نعیم وجاہت
سیاسی پارٹیوں کے خاندانی جھگڑے ، ہندوستانی سیاست میں کوئی نئی بات نہیں ہے، اور یہ جھگڑے پہلے اور آخری بھی نہیں ہیں۔ اس طرح کے خاندانی جھگڑے سیاسی پارٹیوں کے خاتمہ کا سبب بھی بنے ہیں۔ تلنگانہ میں بی آر ایس کی ایم ایل سی کویتا کا اپنے والد کو تحریر کردہ مکتوب منظر عام پر آنے کے بعد بی آر ایس بحران کا شکار ہوچکی ہے۔ کانگریس اور بی جے پی اس کا بھرپور سیاسی فائدہ اُٹھانے کی کوشش کررہی ہیں۔ جبکہ بی آر ایس دفاعی موقف اختیار کرچکی ہے۔ کویتا نے دورۂ امریکہ کو روانگی سے قبل یہ کہا تھا کہ تلنگانہ میں سماجی انصاف نہیں ہوا، تب سے یہ چنگاری شروع ہوئی تھی جو کویتا کے مکتوب کے منظر عام پر آجانے کے بعد شعلے میں تبدیل ہوگئی۔ کویتا، امریکہ سے حیدرآباد لوٹتے ہی ایرپورٹ پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’کے سی آر بھگوان ہے اور ان کے اطراف شیطان ہیں‘‘۔ جس کے بعد سے بی آر ایس میں خاندانی جھگڑے مزید شدت اختیار کرگئے۔ بی آر ایس کے کارگزار صدر کے تارک راما راؤ نے اپنی بہن کویتا کا نام لئے بغیر کہا کہ پارٹی میں چیف منسٹر ریونت ریڈی کے مخبر موجود ہیں جس پر کویتا کو شدید صدمہ پہنچا اور اُنہوں نے کے ٹی آر کے امریکہ روانگی کے بعد اپنی قیام گاہ میں میڈیا سے غیررسمی بات چیت کی جس کے دوران کویتا نے یہ کہتے ہوئے تنازعہ کو ایک نیا موڑ دیا کہ بی آر ایس کو بی جے پی میں ضم کرنے کی سازش رچی گئی تھی۔ کویتا نے بھی کے ٹی آر کا نام لئے بغیر کہا کہ پارٹی میں بی جے پی کے ایجنٹ موجود ہیں۔ بی آر ایس کی ایم ایل سی نے اپنے مکتوب پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے والد کو ایک نہیں 100 مکتوب روانہ کریں گی، اس سے کس کو تکلیف ہورہی ہے؟ بی جے پی لیڈر کے ہاسپٹل کی افتتاحی تقریب میں کس نے شرکت کی تھی، عوام اِس بات کو خوب جانتے ہیں۔ وہ مکتوب کے ذریعہ ورنگل جلسہ عام کے مثبت اور منفی پہلوؤں پر روشنی ڈال چکی ہیں۔ یہ میرے نہیں بلکہ پارٹی قائدین اور کارکنوں کے جذبات تھے، لیکن ایک منظم سازش کے تحت میرے مکتوب کو منظر عام پر لاتے ہوئے مجھے ’’باغی لیڈر‘‘ قرار دینے کی کوشش کی گئی جس کا مجھے بہت صدمہ پہنچا۔ کویتا نے کہا کہ وہ جب جیل میں تھی، تبھی بی آر ایس کو بی جے پی میں ضم کردینے کی کوشش کی گئی جس کی میں نے سخت مخالفت کی تھی۔ بی آر ایس کا بحران سیاسی حلقوں میں موضوع بحث بن چکا ہے۔ کویتا کے انکشاف کی بی جے پی کے رکن اسمبلی حلقہ گوشہ محل راجہ سنگھ نے تصدیق کی ہے جس کے بعد بحران مزید گہرا ہوگیا۔
ووسری جانب کانگریس نے ماضی میں ’’بی آر ایس کو بی جے پی کی B ٹیم قرار دیا تھا‘‘، اس بحران سے اس بات کی راست یا بالواسطہ طور پر تصدیق ہوچکی ہے۔ کویتا نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے، مگر پارٹی کو نقصان سے بچانے کیلئے انہوں نے اس کو ’’سازش‘‘ کا نام دیا اور ساتھ ہی ساتھ کانگریس میں اپنی شمولیت کی بھی تردید کی۔ ریاست کے عام انتخابات میں کانگریس کی کامیابی اور ریونت ریڈی حکومت کی مختلف فلاحی اسکیموں پر عمل آوری کے بعد ریاست میں بی آر ایس کی پوزیشن کمزور پڑچکی ہے۔ شاید اسی وجہ سے بی آر ایس قائدین نے بی جے پی میں پارٹی کو ضم کرنے یا اتحاد کرنے کیلئے کوشش کی تھی۔ لوک سبھا انتخابات میں ریاست کے17 حلقوں کے منجملہ ایک نشست پر بھی بی آر ایس کامیاب نہیں ہوسکی۔ جبکہ بی آر ایس کے سربراہ و سابق چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے بس یاترا کے ذریعہ انتخابی مہم چلائی تھی۔ اس کے بعد منعقدہ کونسل کے گریجویٹ اور ٹیچرس انتخابات سے بی آر ایس کی دُوری، بی جے پی کیلئے فائدہ مند ثابت ہوئی جس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ بی آر ایس نے بی جے پی کیلئے راستہ ہموار کیا ہے۔ ماضی میں جب بی آر ایس ریاست میں 10 سال تک برسراقتدار تھی، تب چیف منسٹر کے سی آر نے مرکز میں بی جے پی زیرقیادت نریندر مودی حکومت کی بھرپور حمایت کی تھی۔ حکومت کے ہر بل، پالیسیوں اور اسکیموں کی تائید کی تھی۔ مثال کے طور پر 2016ء کی نوٹ بندی، جی ایس ٹی، طلاق ثلاثہ، آرٹیکل 370 کے علاوہ مرکزی حکومت نے لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں جو بھی بلس پیش کئے، اُس کی بی آر ایس نے مکمل تائید کی۔ اس سے یہی تاثر اُبھر ہوتا ہے کہ بی آر ایس نے ہمیشہ بی جے پی سے بہتر تعلقات بنانے کی کوشش کی ہے۔ بی آر ایس کے موجودہ بحران پر پارٹی کے صدر کے سی آر کی خاموشی بھی موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔ کے سی آر نے اپنے فرزند کے ٹی آر اور بھانجے ہریش راؤ کو اپنے فارم ہاؤز طلب کرتے ہوئے کویتا کے مکتوب پر پیدا شدہ صورتحال پر تبادلہ خیال کیا، لیکن کویتا کو طلب کرکے خود اُن سے بات چیت کرنے کی کوشش نہیں کی ، البتہ اپنے دو نمائندوں کو کویتا سے بات چیت کرنے کی ذمہ داری سونپی تھی، مگر وہ بھی کویتا کو منانے میں ناکام رہے۔
ریاست میں ریونت ریڈی حکومت، عوام سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے میں مصروف ہے، تو دوسری جانب حکومت کی کارکردگی سے پوری طرح عوام مطمئن نہیں ہے۔ اصل اپوزیشن بی آر ایس اس کا بھرپور فائدہ اُٹھانے کے بجائے خود آپس میں لڑتے جھگڑتے ہوئے پارٹی کیڈر میں الجھن پیدا کررہی ہے۔ ایک طرف بی آر ایس میں Trouble Shooter کی حیثیت سے شہرت رکھنے والے ہریش راؤ نے کے ٹی آر کی قیادت کو قبول کرنے کا اعلان کیا ہے اور اس بات کا بھی واضح طور پر اظہار کیا کہ وہ پارٹی صدر کے سی آر کے ہر فیصلے کو قبول کریں گے، لیکن کے سی آر کی دُختر کویتا نے بالواسطہ طور پر کے ٹی آر کی قیادت کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ کے سی آر کی قیادت پر ہی بھروسہ رکھتی ہیں اور ان کے سواء کسی اور کو پارٹی صدر کی حیثیت سے قبول نہیں کریں گی۔ بی آر ایس کی تازہ صورتحال سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ بی آر ایس خاندانی جھگڑوں میں اُلجھ کر رہ گئی ہے۔
ہم نے دیکھا ہے کہ ملک میں کئی علاقائی پارٹیوں نے عوامی اعتماد حاصل کرتے ہوئے حکمرانی کی ہے، لیکن ان کا زوال عوام کے ذریعہ نہیں ہوا بلکہ خاندانی جھگڑوں سے ہوا ہے۔ تلگو دیشم پارٹی ، وائی ایس آر کانگریس پارٹی ، شیوسینا، این سی پی، سماج وادی پارٹی، ڈی ایم کے وغیرہ شامل ہیں۔ چندرا بابو نائیڈو اپنے ہی سسر آنجہانی این ٹی آر کو اقتدار سے بے دخل کرکے خود پارٹی صدر اور چیف منسٹر بن گئے تھے۔ کانگریس سے علیحدہ ہونے کے بعد وائی ایس آر کانگریس پارٹی تشکیل دینے والے جگن موہن ریڈی نے اپنی بہن شرمیلا کی تائید و مدد سے اقتدار حاصل کیا لیکن بعد میں اپنی بہن کو حکومت میں حصہ داری نہیں دی جس کے سبب خاندانی جھگڑے شروع ہوئے۔ شرمیلا نے تلنگانہ میں سیاست میں اپنی قسمت آزمانے کیلئے ’’وائی ایس آر تلنگانہ پارٹی‘‘ تشکیل دی تھی۔ بعد میں انہوں نے اپنی پارٹی کو کانگریس میں ضم کردیا۔ اس کے بعد کانگریس ہائی کمان نے شرمیلا کو آندھرا پردیش کمیٹی کا صدر نامزد کیا۔
سیاسی حلقوں میں یہ بات بھی گشت کررہی ہے کہ کیا کویتا، ایک اور شرمیلا بنیں گی؟ یا پھر بی آر ایس کے سینئر لیڈر ہریش راؤ ، شیوسینا کے باغی لیڈر ایکناتھ شنڈے بنیں گے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ کے سی آر جو بی آر ایس کے چانکیہ سمجھے جاتے ہیں، وہ پارٹی میں چل رہے بحران پر بہت جلد قابو پالیں گے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بی آر ایس میں بغاوت کرنے والوں کو کبھی پارٹی میں برداشت نہیں کیا گیا۔ ایٹالہ راجندر جو بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ ہیں ، کے علاوہ کئی ایسی مثالیں موجود ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا کے سی آر اپنی بیٹی کے خلاف کارروائی کریں گے یا پھر انہیں مناتے ہوئے موجودہ بحران سے پارٹی کو باہر نکالنے میں کامیاب ہوں گے۔ کے سی آر کی خاموشی پر سیاسی حلقوں میں طرح طرح کی باتیں ہورہی ہیں۔ کویتا کے مکتوب پر بی آر ایس قائدین لب کشائی سے گریز کررہے ہیں ، کوئی بھی قائد ان کی مخالفت یا تائید میں بات کرنے کیلئے تیار نہیں ہے جبکہ بی آر ایس پارٹی کے میڈیا ہاؤزاس مسئلہ پر خاموشی ہیں۔ جبکہ دوسرا کوئی واقعہ پیش آتا تو کے ٹی آر ، ہریش راؤ کے علاوہ پارٹی کے دیگر قائدین میڈیا اور سوشیل میڈیا پر کافی سرگرم رہتے۔ بی آر ایس کے ایک سینئر قائد و سابق رکن پارلیمنٹ جی ونود کمار نے کویتا کے موقف پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پہلی مرتبہ کویتا کی برہمی دیکھنے میں آئی۔ پارٹی نے اُن کے خلاف کوئی وجہ بتاؤ نوٹس جاری نہیں کی بلکہ وہ خود کویتا سے ملاقات کرتے ہوئے مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کریں گے۔