کویتا ۔ کے ٹی آر اور شرمیلا۔ جگن اختلافات

   

جنوبی ہند کی سیاست پر خاندانی کشمکش کا سایہ

٭ بی آر ایس اور وائی ایس آر کانگریس اندرونی بحران کا شکار
٭ بہن ۔ بھائیوں کے جھگڑوں نے کارکنوں کو اُلجھادیا
٭ کویتا کی ناراضگی اور شرمیلا کا بغاوتی رُخ

محمد نعیم وجاہت
جنوبی ہند کی سیاست اس وقت ایک نازک دور سے گزر رہی ہے۔ تلنگانہ میں بھارت راشٹرا سمیتی (بی آر ایس) اور آندھراپردیش میں وائی ایس آر کانگریس پارٹی دونوں جماعتیں اندرونی اختلافات کے باعث شدید دباؤ میں ہیں۔ سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ دونوں جماعتوں کے سربراہان کے قریبی اہل خانہ ہی اب اختلافات کا مرکز بنتے جارہے ہیں۔ بہن بھائیوں کے درمیان کشیدگی نے سیاسی کارکنوں اور رائے دہندوں کو اُلجھن میں ڈال دیا ہے۔ تلنگانہ تحریک کی قیادت کرتے ہوئے علیحدہ ریاست کے حصول میں کلیدی رول ادا کرنے والی بی آر ایس نے 10 سال تک تلنگانہ پر حکمرانی کی ہے۔ بحیثیت چیف منسٹر کے سی آر نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کے کئی نقوش چھوڑے ہیں جس کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن اقتدار سے بیدخل ہونے کے بعد سیاسی اور خاندانی بحران کا شکار ہوگئی۔ پارٹی کے سربراہ سابق چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ فارم ہاؤز تک محدود ہوگئے ہیں۔ تاہم ان کے فرزند پارٹی کے ورکنگ پریسیڈنٹ کے ٹی آر اپوزیشن قائد کا تعمیری رول ادا کرنے کے لئے مؤثر حکمت عملی تیار کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ مگر پارٹی کی ایم ایل سی کے سی آر کی دختر کے کویتا اپنے بھائی کے ٹی آر کے فیصلوں اور سیاسی حکمت عملیوں سے اختلاف کرتی نظر آرہی ہیں۔ کویتا کے بیانات اور رویہ کارکنوں میں بے اعتمادی کو ہوا دے رہا ہے۔ اگر یہ اختلافات حل نہیں ہوتے ہیں تو بی آر ایس کیلئے کانگریس اور بی جے پی کے مقابل کھڑا رہنا مشکل ہوجائے گا۔ پارٹی کو ایک طرف کالیشورم کمیشن کا سامنا ہے جس میں کے سی آر اور ہریش راؤ کے رول پر سوال کھڑے ہورہے ہیں۔ دوسری طرف فارمولہ ای ریس میں کے ٹی آر کے خلاف تحقیقات کی جارہی ہیں۔ ریاست کو مقروض کردینے کا بی آر ایس پر الزام عائد کیا جارہا ہے۔ ساتھ ہی بی آر ایس کو بی جے پی میں ضم کرنے کی افواہوں کو کے کویتا نے تقویت بخشی ہے، شراب اسکام میں کویتا جیل گئی ہیں۔ کانگریس حکومت بی آر ایس پر سیاسی وار کرتے ہوئے اپنے آپ کو مضبوط کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ بی جے پی بھی بی آر ایس کے اختلافات سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کی کوشش کررہی ہے۔ کویتا نے امریکہ جانے سے قبل ورنگل میں منعقد ہوئے پارٹی کے سلور جوبلی جلسہ عام کے تعلق سے مثبت اور منفی پہلوؤں کو اُجاگر کرتے ہوئے اپنے والد اور پارٹی سربراہ کے سی آر کو ایک مکتوب لکھا تھا جو ان کے واپس حیدرآباد پہونچنے تک افشا ہوگیا جس پر کویتا نے حیدرآباد ایرپورٹ پہونچتے ہی اپنی برہمی کا اظہار کیا۔ پارٹی کے سربراہ کے سی آر کے اطراف شیاطین ہونے کا ریمارک کیا، ساتھ ہی بی آر ایس کو بی جے پی میں ضم کرنے کی سازش کا بھی الزام عائد کیا۔ ان کے مکتوب کو منظر عام پر لانے والوں کا چہرہ بے نقاب کرنے تک بی آر ایس کی سرگرمیوں سے دور رہنے کا اعلان کیا اور اپنی تنظیم تلنگانہ جاگرتی کی سرگرمیوں میں اچانک تیزی پیدا کردی۔ کے ٹی آر نے بھی بالراست کویتا پر تنقید کی۔ نوبت یہاں تک پہونچ گئی کہ راکھی تہوار میں بہن کویتا نے بھائی کے ٹی آر کو راکھی بھی نہیں باندھی۔ اپنے چھوٹے بیٹے کی اعلیٰ تعلیم کے لئے کویتا دوبارہ امریکہ گئی ہیں۔ ان کی غیر موجودگی میں کول مائن مزدور تنظیم کی اعزازی صدارت سے کویتا کو ہٹاکر ان کی جگہ سابق ریاستی وزیر کوپلا ایشور کو صدر بنادیا گیا اس پر بھی امریکہ سے مکتوب جاری کرتے ہوئے کویتا نے سخت ردعمل کا اظہار کیا۔ آندھراپردیش میں سابق چیف منسٹر اور وائی ایس آر کانگریس پارٹی کے صدر جگن موہن ریڈی کو بھی اندرونی چیالنجس کا سامنا ہے۔ ان کی بہن وائی ایس شرمیلا ان کی سب سے بڑی مخالف بن گئی ہے۔ جگن موہن ریڈی جب سی بی آئی مقدمہ میں جیل میں تھے اُس وقت پارٹی کو ٹوٹ کر بکھرنے سے بچانے میں ان کی بہن وائی ایس شرمیلا نے اہم رول ادا کیا۔ 3 ہزار سے زائد کیلو میٹر کی پدیاترا کی، لاکھوں افراد سے براہ راست ملاقات کرتے ہوئے انھوں نے وائی ایس آر کانگریس کو مضبوط بنیاد فراہم کی اور پارٹی کو دوبارہ زندہ کیا۔ لیکن جب جگن موہن ریڈی اقتدار میں آئے تو شرمیلا کو پارٹی یا حکومت میں کوئی بڑی ذمہ داری نہیں دی گئی۔ یہ وہ موڑ تھا جہاں سے دونوں کے درمیان اختلافات گہرے ہوئے۔ بعد میں خاندانی جائیداد کے معاملات بھی سامنے آئے جس نے تعلقات کو مزید تلخ کردیا۔ اسی دوران شرمیلا تلنگانہ پہونچیں۔ وائی ایس آر تلنگانہ پارٹی تشکیل دی۔ تاہم انتخابات سے قبل انھوں نے دہلی میں کانگریس کے اہم قائدین سے ملاقات کرتے ہوئے اپنی پارٹی کو کانگریس میں ضم کردیا، بدلے میں کانگریس ہائی کمان نے اُنھیں آندھراپردیش کانگریس پارٹی کا صدر بنادیا اور شرمیلا کی قیادت میں کانگریس پارٹی نے انتخابی مقابلہ کیا۔ یہ اور بات ہے کہ اس سے کانگریس کو کوئی فائدہ نہیں پہونچا مگر کانگریس سے بغاوت کرنے والے اپنے بھائی جگن موہن ریڈی کو اقتدار سے بیدخل کرنے میں نمایاں رول ادا کیا۔ اسی وجہ سے آج شرمیلا اپنی علیحدہ سیاسی شناخت بنانے کی کوشش کررہی ہیں۔ ان کا کانگریس میں شامل ہوجانا جگن کیلئے براہ راست چیلنج بن چکا ہے۔ بی آر ایس اور وائی ایس آر کانگریس کے اندرونی اختلافات کا اثر ان دونوں پارٹیوں کے کارکنوں میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب قیادت ہی منقسم ہو تو عوام کو کیا پیغام دیا جائے گا۔ یہی بے یقینی کارکنوں کی حوصلہ شکنی اور عوامی اعتماد میں کمی کا سبب بن رہی ہے۔ یہ بات حقیقت ہے۔ خاندانی سیاست ہندوستانی جمہوریت کا ایک نمایاں پہلو رہی ہے۔ گاندھی خاندان سے لے کر سماج وادی پارٹی کے ملائم سنگھ یادو کے گھرانے تک کئی بار بہن بھائیوں اور رشتہ داروں کے اختلافات نے پارٹیوں کو نقصان پہنچایا۔ اب یہی کیفیت جنوبی ہند کی سیاست میں دیکھی جارہی ہے۔ وائی ایس راج شیکھر ریڈی کے بعد خاندان میں اتحاد باقی نہ رہا جس کے نتیجہ میں آج جگن اور شرمیلا کی علیحدہ علیحدہ سیاست کی صورت میں سامنے ہے۔ تلنگانہ میں کانگریس کے اقتدار میں آنے کے بعد بی آر ایس دوبارہ عوامی اعتماد حاصل کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔ پارٹی کے پاس اگر اندرونی اتحاد نہ ہو تو آنے والے مقامی اداروں کے انتخابات بی آر ایس کیلئے آزمائش بن سکتے ہیں۔ تلنگانہ اور آندھراپردیش کی سیاست اس وقت ایسے دوراہے پر کھڑی ہے جہاں مخالف جماعتوں کا دباؤ اپنی جگہ ہے لیکن اصل مسئلہ اندرونی اختلافات اور خاندانی سیاست کا ہے۔ اگر بی آر ایس اور وائی ایس آر کانگریس پارٹی اپنی صفوں میں اتحاد بحال نہ کرسکیں تو جنوبی ہند کی سیاست کا منظر نامہ آنے والے دنوں میں بڑی تبدیلیوں کا گواہ بن سکتا ہے۔