جگدیپ دھنکڑ …بڑے بے آبرو ہوکر …
ملک میں مسائل … نریندر مودی فلائیٹ موڈ میں
رشیدالدین
ظل الٰہی کو غصہ کیوں آیا؟ عالم پناہ کو آخر کس گستاخی نے ناراض کردیا کہ سلطنت مودی میں دوسرا مقام رکھنے والے جگدیپ دھنکڑ کو توہین آمیز انداز میں دربار سے نکال دیا گیا۔ ہندوستان میں انگریزوں کے تسلط سے پہلے راجہ مہاراجہ اور شہنشاہوں کا دور ختم ہوگیا۔ آزادی کے بعد ہندوستان میں جمہوری دور کے تحت عوامی منتخب حکومتیں تشکیل پانے لگی لیکن 2014 میں نریندر مودی۔امیت شاہ کی گجراتی جوڑی نے جمہوریت کی جگہ عملاً بادشاہت اور تانا شاہی کے دور کا احیاء عمل میں لایا۔ جمہوریت کو برائے نام کرتے ہوئے بادشاہت کے اصولوں پر عمل پیرا مودی۔امیت شاہ نے دستوری اداروں اور دستوری عہدوں کو بھی نہیں بخشا۔ جس طرح شاہی دور میں ظل الٰہی کے اشارہ کی خلاف ورزی کو نافرمانی اور بغاوت تصور کیا جاتا تھا ، ٹھیک اسی طرح گجرات کی اس جوڑی کو ناراض کرنے والا کوئی بھی شخص چاہے وہ کسی سطح پر کیوں نہ ہو قابل گرفت اور سزا کا مستحق بن جاتا ہے۔ اعلیٰ سرکاری اداروں پر پہلے گرفت حاصل کی گئی ، اس کے بعد عدلیہ میں بھی اپنے ہم خیال افراد کو شامل کرتے ہوئے غیر جانبداری اور آزادی کو مشکوک بنادیا گیا۔ نائب صدر جمہوریہ کے عہدہ سے جگدیپ دھنکڑ کا ’’جبری‘‘ استعفیٰ مودی۔امیت شاہ کی تاناشاہی کی زندہ مثال ہے ۔ 21 جولائی کی شام 6 بجے تک سب کچھ ٹھیک تھا اور جگدیپ دھنکڑ نے راجیہ سبھا کے صدرنشین کے طور پر معمول کے مطابق کارروائی بھی چلائی ۔ دھنکڑ کے شان و گمان میں بھی نہیں تھا کہ فلم مغل اعظم کے ظل الٰہی کی طرح نریندر مودی ۔ امیت شاہ ان سے اچانک ناراض ہوجائیں گے۔ انار کلی سے محبت اور شہنشاہ سے بغاوت کے جرم میں جس طرح شہزادہ سلیم کو موت کی سزا سنائی گئی تھی ، اسی طرح جگدیپ دھنکڑ کو بے عزتی کے ساتھ معزول کردیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق رات 8 بجے سے مودی اور امیت شاہ کے دفاتر میں اچانک سرگرمیوں کا آغاز ہوا۔ این ڈی اے میں شامل پارٹیوں کے وزراء کو فوری طلب کرتے ہوئے ہنگامی مشاورت کی گئی اور رات 9 بجے تک مکتوب استعفی کا مسودہ تیار کرلیا گیا۔ استعفیٰ جگدیپ دھنکڑ کا ہے لیکن اسے کسی اور نے ڈرافٹ کیا تھا ۔ پھر اچانک دھنکڑ کے پاس مکتوب استعفیٰ بھیج کر دستخط کرنے کی ہدایت دی گئی ۔ اس اچانک سیاسی طوفان پر دھنکڑ صدمہ میں آگئے اور انہوں نے بتایا جاتا ہے کہ مودی اور امیت شاہ کے نمائندوں سے خواہش کی کہ انہیں کم از کم صبح تک کا وقت دیا جائے تاکہ ظل الٰہی کو مناسکیں لیکن جواب آیا کہ ’’کل نہیں آج، آج نہیں ابھی‘‘۔ پھر کیا تھا کہ دھنکڑ نے روتے ہوئے دستخط کردیئے جسے فوری طور پر وائرل کردیا گیا اور محض چند لمحوں میں دھنکڑ سابق نائب صدر جمہوریہ ہوگئے۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے ، جب کسی نائب صدر کو اس طرح بے عزتی کے ساتھ معزول کیا گیا ۔ صدر جمہوریہ کے بعد نائب صدر دستوری اعتبار سے ملک کا دوسرا شہری ہوتا ہے ۔ دھنکڑ کی میعاد کی تکمیل کیلئے ابھی دو سال باقی تھے کہ اچانک ان پر ظل الٰہی کا قہر ٹوٹ پڑا ۔ ملک کی تاریخ میں بعض نائب صدور نے استعفیٰ ضرور دیا لیکن اس کی وجہ ان کا نائب صدر سے صدر جمہوریہ بن جانا تھا یا پھر نائب صدر کے دیہانت سے یہ عہدہ خالی ہوا تھا ۔ دھنکڑ کے استعفیٰ کے لئے خرابیٔ صحت کو بنیاد بنایا گیا جو کسی عذر لنگ کے سوا کچھ نہیں۔ جگدیپ دھنکڑ کی صحت مکمل ٹھیک تھی، اگرصحت کا مسئلہ ہوتا تو وہ ایوان کی کارروائی نہیں چلاتے اور اپوزیشن کے ساتھ اجلاس نہ کرتے۔ جگدیپ دھنکڑ سے ایسی کیا گستاخی ہوگئی کہ انہیں فوری استعفیٰ کے لئے مجبور کرتے ہوئے معزول کردیا گیا۔ وجوہات کے بارے میں میڈیا اور سیاسی حلقوں میں مختلف اندازے قائم کئے جارہے ہیں لیکن حقیقی وجہ مودی ۔امیت شاہ یا پھر خود جگدیپ دھنکڑ بتاسکتے ہیں ۔ جگدیپ دھنکڑ کے ساتھ جو سلوک کیا گیا ، اس پر سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ جو کچھ ہوا وہ ہونا ہی تھا ۔ راجیہ سبھا کے صدرنشین کے طور پر اپوزیشن ارکان حتیٰ کہ قائد اپوزیشن ملکارجن کھرگے کی توہین ، اپوزیشن ارکان کی معطلی اور نائب صدر کی حیثیت سے عدلیہ سے راست ٹکراؤ دھنکڑ کے منفی پہلو رہے۔ گودی میڈیا اس وقت تو ان کی تعریفوں کے پل بانتا رہا جب وہ اپوزیشن کی توہین اور عدلیہ کو چیلنج کرتے رہے لیکن جیسے ہی بادشاہ وقت نے انہیں معزول کردیا تو گودی میڈیا کے سر تبدیل ہوگئے اور دھنکڑ کی خامیوں کی نشاندہی کی جانے لگی۔ عوام کو مطمئن کرنے کیلئے میڈیا کے ذریعہ الزام لگایا گیا کہ جگدیپ دھنکڑ حکومت کی پالیسی سے ٹکرا رہے تھے۔ اور اپوزیشن کے قریب ہوکر مودی کے خلاف تبصرے کر رہے تھے۔ حالانکہ یہ الزام سراسر بے بنیاد اس لئے بھی ہے کہ جگدیپ دھنکڑ نے چاٹو کاریتا کی تمام حدود کو پار کردیا تھا ۔ دستوری عہدہ کی پرواہ کیئے بغیر ہمیشہ نریندر مودی کے سامنے دست بستہ اور ہاتھ جوڑ کر دکھائی دیئے ۔ دھنکڑ راجیہ سبھا کی تاریخ کے پہلے صدرنشین ہیں، جن کے خلاف اپوزیشن نے مواخذہ کی تحریک پیش کرتے ہوئے برطرفی کی مانگ کی تھی۔ ایوان میں اپوزیشن کے ساتھ ان کا رویہ ہمیشہ توہین آمیز اور جانبدارانہ رہا جبکہ صدرنشین اور اسپیکر لوک سبھا کا منصب غیر جانبداری ہوتا ہے ۔ گورنر مغربی بنگال کے طور پر جگدیپ دھنکڑ نے ممتا بنرجی کے لئے کئی مسائل پیدا کئے تھے۔ راج بھون سے گورنر نہیں بلکہ بی جے پی قائد کی طرح کام کیا تھا ۔ ممتا بنرجی سے ٹکراؤ نے جگدیپ دھنکڑ کو نائب صدر جمہوریہ تک پہنچنے میں مدد کی ۔ صدر جمہوریہ ، نائب صدر ، اسپیکر لوک سبھا اور گورنر کے عہدے دستوری ہیں اور برسر اقتدار پارٹی ان کا انتخاب کرتی ہے لیکن ملک کی تاریخ میں شائد ہی ان عہدوں پر فائز کسی شخص نے اس قدر چاپلوسی نہیں کی جتنی کہ جگدیپ دھنکڑ نے کی تھی۔ چاپلوس اور چاٹو کاروں کا انجام یہی ہوتا ہے کہ انہیں استعمال کر کے ’’گٹ آؤٹ‘‘ کردیا جاتا ہے ۔ سماج کے ہر شعبہ میں چاٹو کاروں کا یہی حشر ہم نے دیکھا ہے اور چاپلوسوں کے اچھے دن زیادہ دن نہیں رہتے۔
ہر مرض کی دوا زندہ طلسمات کی طرح نریندر مودی کیلئے ہر مسئلہ کا حل بیرونی دورہ ہے۔ پارلیمنٹ کے مانسون سیشن کا ہنگامہ خیز آغاز ہوا اور کئی اہم اور سلگتے مسائل پر حکومت کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں جواب دینا ہے لیکن نریندر مودی مسائل کے انبار چھوڑ کر برطانیہ اور مالدیپ کے دورہ پر روانہ ہوگئے ۔ نائب صدر جمہوریہ جگدیپ دھنکڑ کا استعفیٰ ، پہلگام دہشت گرد حملہ ، آپریشن سندور ، سیز فائر ، فوجی نقصانات ، اور بہار میں ووٹ بندی کے ذریعہ لاکھوں مسلمانوں کو شہریت سے محروم کرنے کی سازش جیسے مسائل کا ملک کو سامنا ہے۔ الیکشن کمیشن کے ذریعہ بہار میں غیر معلنہ این آر سی پر عمل کیا جارہا ہے ۔ عوام کو امید تھی کہ وزیراعظم نریندر مودی پارلیمنٹ میں ان تمام سوالات کا جواب دیں گے ۔ دوسری طرف امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے 25 مرتبہ یہ دعویٰ کیا کہ انہوں نے تجارت بند کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے ہندوستان اور پاکستان کو سیز فائر کیلئے مجبور کردیا۔ ملک کو سچائی بتانے کا پارلیمنٹ سے بہتر کوئی اور پلیٹ فارم نہیں ہوسکتا۔ نریندر مودی حکومت نے پارلیمنٹ کو محض ایک رسمی کارروائی تک محدود کردیا ہے اور جمہوریت کے اس مندر پر اقتدار کا غلبہ ہوچکا ہے ۔ مانسون سیشن کے پہلے دن اجلاس سے قبل وزیراعظم نریندر مودی نے پارلیمنٹ کے باہر میڈیا کے ذریعہ 18 منٹ تک قوم سے خطاب کیا۔ گزشتہ 11 برسوں میں پارلیمنٹ کے باہر نریندر مودی کا اب تک کا سب سے طویل خطاب رہا۔ جو باتیں پارلیمنٹ میں کہنی تھی، وہ مودی نے باہر کہہ دیا۔ نریندر مودی صرف 9 منٹ لوک سبھا میں موجود رہے ، اس کے بعد دکھائی نہیں دیئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مودی نے 18 منٹ میڈیا سے بات کی اور جگدیپ دھنکڑ کے مکتوب استعفیٰ کی سطریں بھی 18 تھی۔دنیا میں شائد ہی کوئی سربراہ ایسا ہو جو اپنی پارلمنٹ کا اجلاس چھوڑ کر بیرونی تفریح کو ترجیح دے لیکن نریندر مودی کے پاس پارلیمنٹ سے زیادہ بیرونی دوروں کی اہمیت ہے۔ وزیراعظم کے بغیر اپوزیشن پارلیمنٹ کے انعقاد کے حق میں نہیں تھی اور روزانہ ہنگامہ آرائی جاری رہی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نریندر مودی اپنی تیسری میعاد میں ورلڈ ٹور کا ریکارڈ قائم کریں گے۔ بیرونی دورہ کے نام سے نریندر مودی کے چہرہ پر چمک آجاتی ہے اور دیگر ممالک میں قدم رکھتے ہی مودی کا انداز اور چال ڈھال بدل جاتے ہیں ۔ بیرونی سربراہوں کو موقع بے موقع گلے لگانا اور بات بات پر قہقہ لگانا ان کی عادت بن چکی ہے۔ پارلیمنٹ سیشن کے پیش نظر بیرونی دورے کے پروگرام کو بعد میں طئے کیا جاسکتا تھا لیکن سیشن کے آغاز پر بیرونی دورہ کرتے ہوئے نریندر مودی نے ثابت کردیا کہ ان کے نزدیک پارلیمنٹ محض ایک رسمی ادارہ ہے۔ نریندر مودی سچائی اور حقائق سے کب تک بچتے رہیں گے۔ جگدیپ دھنکڑ کے استعفیٰ پر مرزا غالب کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
بے خودی بے سبب نہیں غالبؔ
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے