کچھ خبر ہے تجھے اے چین سے سونے والے
مسلمان ملک میں بہت سے مسائل سے دوچار ہیں ،وہ معاشی اعتبار سے سب سے زیادہ پسماندہ گروہ ہیں، وہ تعلیم میں پیچھے ہیں، ہزاروں مسلمان نوجوانوں کو نامنصفانہ طور پر جیل کی کوٹھریوں میں ڈال دیا گیا ہے ، منصوبہ بند فرقہ وارانہ فسادات نے مسلمانوں کو بے شمار جانی و مالی نقصان پہونچایا ہے ؛ لیکن ان سب سے بڑا خطرہ وہ ہے جو اس وقت سر پر منڈلا رہا ہے ، اور وہ خطرہ ہے مسلمانوں کی نئی نسل کو ایمان سے محروم کرنے کا، نصابِ تعلیم ،اسکول کا ماحول اور تعلیم و تربیت کا نظام ،اِن سب کو مشرکانہ رنگ میں رنگنے کی کوشش جاری ہے ، اور پوری سرگرمی کے ساتھ اس پر عمل کرنے کی کوشش ہو رہی ہے ، اور سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ فرقہ وارانہ ایجنڈے کو سیاسی ہتھیار بنا لیا گیا ہے ، اور اقتدار کے بام و در تک پہونچنے کے لیے ایک آسان اور سہل الوصول راستہ کے طور پر اس کا استعمال کیا جا رہا ہے؛ حالانکہ حکومت کا یہ عمل ملک کے دستور کے مغایر اور اس اصول کے منافی ہے جس پر وطن عزیز کے معماروں نے اس تکثیری معاشرہ پر مبنی ملک کی بنیاد رکھی تھی۔ اس صورت حال کا مقابلہ تمام مسلمانوں کو مل جل کر کرنا ہوگا ، مسلک و مشرب کے اختلاف سے اوپر اٹھ کر جد وجہد کرنی ہوگی، ایک طرف سیاسی اور عدالتی سطح پر سرکاری اسکولوں میں ایک مخصوص مذہب کی تعلیم اور ثقافت کو رواج دینے کی مخالفت کرنی ہوگی، اور اس کے لیے انصاف پسند برادرانِ وطن کا بھی تعاون حاصل کرنا ہوگا، اور دوسری طرف خود مسلمانوں کو ایسے تعلیمی ادارے قائم کرنے ہوں گے، جو معیاری عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ اسلامی ماحول میں بنیادی دینی تعلیم کی سہولت فراہم کرتے ہوں، اور صرف تجارتی بنیادوں پر ان کا قیام عمل میں نہ آیا ہو؛ بلکہ ایک دینی مشن کے طور پر اس خدمت کو انجام دیا جا رہا ہو۔
حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ
(سابق جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ)پیشکش: سوشل میڈیا ڈیسک آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ