’’کہاں گیا وہ میرا ہندوستان…؟‘‘

   

جسپال سنگھ… نئی دہلی
رام نومی کے مبارک دن میں دواخانہ میں پڑا آکسیجن چڑھوا رہا تھا۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ اس کے بغیر زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھوگے۔ صبح کا وقت تھا، سوچا کتنا مبارک دن ہے۔
رام دھرتی پر آئے اور رام راجیہ ستھاپت کیا۔ ایک ایسی حکومت جس میں ایک دھوبی کی آواز بھی انصاف کے تقاضے پورے کرتی تھی۔
چھوٹا تھا تو رام نومی کے دن ماں اُنگلی پکڑ کر مندر لے جاتی، عید آتی تو پڑوس سے ایسی لوازمات آتے کہ کئی روز تک اُنگلی چاٹتا رہتا۔ جی نہیں! میری ماں ہندو نہیں تھی، مسلمان بھی نہیں تھی، بس اچھی تھی، اس کی نگاہ میں سب یکساں تھے، بھائی تھے، بہنیں تھیں۔ بس اور کچھ نہیں۔ میں جب بھی کہتا کہ ہم تو سکھ ہیں، ہندوؤں، مسلمانوں سے کیا واسطہ تو میرے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر کہتی، گوربانی میں لکھا ہے:سبھی کو ایک سا جانواور مسلمان؟ وہ ہنستی اور کہتی ’’رب العالمین‘‘ اور ہندو؟ پھر ہنستی دھیمی آواز میں کہتی ہندو بھی تو سب کو ایک ہی ’’کٹمبھ‘‘ سمجھتے ہیں۔
مجھے آکسیجن چڑھائی جاتی رہی۔ دن بھر سوچا آکسیجن بھی کیا چیز ہے۔ اس کے بغیر انسان سانس تک نہیں لے سکتا۔ سماج کو بھی تو آکسیجن چاہئے محبت کی، بھائی چارے کی، ایک دوسرے کا دُکھ سکھ بانٹنے کی۔ مجھے ماں بہت یاد آئی۔ مجھے مندر یاد آئی۔ نہیں مندر نہیں، مندر میں گائے جانے والی آرتی: ’’دُکھ بسنے سب کا‘‘ کانوں میں گونجی، صبح سویرے گردواروں میں گائے جانے والے شبد ’’کوئی بولے رام رام ،کوئی خدا‘‘ یاد آئے اور ہاں رشید بھی بہت یاد آیا۔ صبح مسجد کو جاتا ہوا۔ نمازی تھا، میرے بچپن کا یار، عیدی وہی تو لے کر آتا تھا۔ کمبخت گردوارے کا کڑھا پرشاد کھائے بغیر ہلتا تک نہ تھا۔
شام تک طبیعت میں کچھ سدھار آیا۔ سوچا اتنا مبارک دن ہے ٹی وی دیکھا جائے، نہ دیکھتا تو اچھا تھا۔ یا خدا کیا آج سچ مچ رام نومی ہے؟ وہ رام جی کی عقیدت میں گائے جانے والے بھجن کیا ہوئے؟ وہ پیار، محبت، گلے ملنا، ناچنا، وہ نگر کیرتن، وہ سب کیا ہوئے، ہلڑ بازی، بستیوں پر وار، ننگے ناچ، نفرت انگیز نعرے یااِلٰہی یہ ماجرہ کیا ہے؟ میں نے 1984ء کا قتل عام دیکھا ہے۔ نہتے سکھوں کے گلے میں جلتے ہوئے ٹائر دیکھے ہیں، معصوم بچوں کو زندہ جلتے دیکھا ہے۔ یہ پھر سے نفرت کی آگ کون بھڑکا رہا ہے؟ ابھی تو ہم نے گجرات، نہ 1984ء یہ ہوا تو کیوں ہوا؟ کس کی ایماء پر ہوا؟ کون ہے جو گھر بیٹھا دوسروں کے گھر جلوا رہا ہے؟ اور یہ روز روز کے دنگے، فسادات، قتل و غارت گرکیوں ہورہی ہے، یہ سب؟ آپ ایک قسم کا لباس نہیں پہن سکتے۔ آپ اپنا پسندیدہ کھانا نہیں کھا سکتے، آپ اجازت کے باوجود بھی کھلے میں نماز نہیں ادا کرسکتے لیکن دوسرے کو اجازت ہے دن دھاڑے۔ پولیس کی موجودگی میں آپ کے خلاف زہر اُگلے، مظلوم کے گھر گرائے جائیں اور اگر سہمی ہوئی آنکھوں سے، خوف زدہ زبان سے انصاف کا تقاضہ کرے تو مرہم کی جگہ زخمی دِلوں پر اور ضربیں لگائی جائیں اور اس ظلم و تشدد کے ٹھیکیدار مظلوم کو ہی ظالم قرار دینے پر بضد ہوں تو ایسے ماحول میں کس سے فریاد کی جائے۔ کس سے انصاف کی توقع کی جائے۔ یہ کیسی شوبھا یاترائیں ہیں جو اپنے پیچھے نہتوں کو زخمی چھوڑ جائیں۔ یہ کیسی سوسائٹی ہے جس میں سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود گھر گرائے جاتے ہیں!
اقبالؔ کا شاہیں تو خیر سے کب کا مرچکا، جنہوں نے پر کٹوائے، وہ مسندوں پر بیٹھے، ہنومان چالیسا پڑھ رہے ہیں۔ اُپنشیدوں کا گیان بانٹ رہے ہیں۔ Self Styled لیڈر نہ بہار سے، نہ یوپی سے سبق سیکھنے کو تیار نہیں۔ کیا سب کچھ لٹ چکا؟ کیا کوئی اُمید بر نہیں آئے گی؟ ایسا بھی نہیں ہے۔ بہت کچھ کھویا ہے۔ بہت کچھ کھو رہے ہیں، لیکن بہت سا سرمایہ اب بھی ہے۔ ہمارے پاس، اگر نماز سے روکا جاتا ہے تو گردواروں کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ ہندو بھی اپنے چھوٹے سے گھر سے انہیں خوش آمدید کہتے ہیں۔ ایسے بھی گردوارے ہیں جہاں رمضان کے مبارک ماہ میں افطاری کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ یہ زمین سے محروم نہیں رہ سکتی۔
نہیں میری طرح ابھی سماج کو آکسیجن کی ضرورت نہیں۔ دل میں محبت و ایثار کے چشمے پھوٹتے رہنے دیجئے اور یقین جانئے۔
جب ظلم و ستم کے کوہِ گراں
روئی کی طرح اُڑ جائیں گے
ہم دیکھیں گے ، ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے