کہ ہر عروج یہاں پر زوال رکھتا ہے

,

   

نریندر مودی … کس کا ساتھ کس کا وکاس؟
دہلی نتائج … ملک ایک جماعتی نظام کی طرف

رشیدالدین
جھوٹ کو اتنا دہراؤ کہ لوگ سچ سمجھنے لگ جائیں۔ وزیراعظم نریندر مودی اسی فارمولہ پر عمل پیرا ہیں۔ نریندر مودی نے جملہ بازی اور الفاظ کی جادوگری کے ذریعہ 2014 میں اقتدار حاصل کیا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انتخابی جملوں کی ادائیگی میں مہارت پیدا ہوچکی ہے۔ صدر جمہوریہ کے خطبہ پر تحریک تشکر مباحث کا راجیہ سبھا میں جواب دیتے ہوئے نریندر مودی نے ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ نعرہ کی آڑ میں کانگریس کو جم کر نشانہ بنایا۔ وزیراعظم کا فن خطابت کہیں یا پھر سیاسی مشیروں کی ستائش کی جائے، یہ طئے کرنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ نریندر مودی نے الفاظ کی جو تُک بندی کی وہ مشیروںکی تحریر کا نتیجہ ہے۔ وزیراعظم کی تقاریر لکھنے والے مبارکباد کے مستحق ہیں جو عوام کے درمیان نریندر مودی کو ایک کامیاب مقرر کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ ’’پھر آگئے وہیں پر جہاں سے چلے تھے ہم‘‘ کے مصداق نریندر مودی 2014 میں لوٹ آئے ہیں۔ کانگریس کو نشانہ بنانے کیلئے سب کا ساتھ سب کا وکاس نعرہ کا سہارا لیا گیا۔ مودی یہ بھول گئے کہ اس نعرہ میں وقت کے ساتھ ساتھ ’’سب کا وشواس اور سب کا پریاس‘‘ جیسے جملوں کا اضافہ ہوچکا ہے۔ راجیہ سبھا میں تقریر کے دوران مودی نے ’’ سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ نعرہ تک خود کو محدود رکھا۔ شائد اس لئے کہ انہیں عوام کا وشواس (اعتماد) اور سب کا پریاس (کوشش) دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ دو میعادوں میں بی جے پی کو اکثریت حاصل ہوئی جبکہ تیسری میعاد میں وہ اکثریت سے محروم ہوگئی اور حلیف پارٹیوں کے سہارے مخلوط حکومت تشکیل دینی پڑی۔ نریندر مودی کو تیسری میعاد میں عوام کا اعتماد حاصل نہیں ہوا، لہذا انہوں نے راجیہ سبھا میں پرانے نعرہ کو ہی تقریر کا مرکز بنایا۔ مودی کے مطابق بی جے پی ہر ہندوستانی کی فکر کرتی ہے جبکہ کانگریس کو صرف گاندھی خاندان کی فکر ہے۔ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ بی جے پی کا ایجنڈہ نیشن فرسٹ ہے جبکہ کانگریس کے نزدیک گاندھی پریوار فرسٹ ہے۔ سیاسی تنقید کے اعتبار سے یہ جملہ بازی خوب رہی لیکن خاندان کی اہمیت وہی جانتا ہے جو گھردار والا ہو۔ نریندر مودی کا گھر گرہستی سے کوئی تعلق نہیں، لہذا وہ خاندان کی قیمت کیا جانیں گے۔ کوئی ادارہ ہو یا حکومت ، کامیابی سے وہی شخص چلا سکتا ہے جس کا خاندان ہو۔ نریندر مودی کا پریوار تو دراصل سنگھ پریوار ہے۔ راجیہ سبھا میں نریندر مودی کی تقریر کے دوران جھوٹ کا ایک سیل رواں دکھائی دے رہا تھا اور ان کے ہمنوا موقع بے موقع میزیں تھپتھپاکر ان کے جھوٹ کی ستائش کر رہے تھے۔ نریندر مودی کو خود ستائی کے شوق اور خواہش کا اندازہ اس وقت ہوا تھا جب وزیر فینانس نرملا سیتا رامن نے بجٹ تقریر میں وزیراعظم کی تعریف کی اور مودی اپنی تعریف سن کر خود ہی میز تھپتھپانے لگے۔ مودی نے دعویٰ کیا کہ دس برسوں میں سب کا ساتھ سب کا وکاس نعرہ پر عمل ہوا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس کو ساتھ لیا گیا اور کس کا وکاس ہوا۔ عوام کا ساتھ اور ان کا وکاس ہوتا تو غربت ، بیروزگاری اور مہنگائی میں اضافہ نہ ہوتا۔ غریب اور متوسط طبقات کے مسائل میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا ہے۔ اقتدار کے دس سال مکمل ہوگئے جبکہ 100 دن میں مہنگائی پر قابو پانے کا وعدہ تھا۔ ہر سال دو کروڑ روزگار کے وعدہ کے تحت 20 کروڑ روزگار کہاں فراہم کئے گئے ، اس کی وضاحت کی جائے۔ بنیادی طبی سہولتوں کی فراہمی اور عوام کی زندگی بچانے کا دعویٰ کرنے والی حکومت کے دوران کرونا وباء سے ہزاروں افراد لقہ اجل بن گئے ۔ نریندر مودی کے 10 سالہ اقتدار میں اگر کسی کا وکاس ہوا ہے تو وہ ان کے قریبی گوتم اڈانی اور جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں اور سنگھ پریوار کا ہوا جو گجرات سے مودی کے ساتھ ہیں ۔ ملک کی دوسری بڑی اکثریت مسلمانوں کا جائزہ لیں تو ان کا ساتھ اور وکاس دونوں مودی کو پسند نہیں۔ 10 برسوں میں مسلمانوں کو محرومی اور ناانصافی کے سوا کچھ نہیں ملا۔ طرز حکمرانی کے ذریعہ مودی نے یہ ثابت کردیا کہ مسلمان اس نعرہ کا حصہ نہیں ہیں۔ ظاہر ہے کہ سنگھ پریوار مسلمانوں کو ہندوستانی تسلیم نہیں کرتا ، لہذا حکومت سے بھلائی کی امید کرنا فضول ہے۔ اسلام اور شریعت پر حملوں اور مسلمانوں پر مظالم کو چھوڑ کر حکومت کے دستوری فرائض کی تکمیل کا جائزہ لیں تو مسلمانوں کو تعلیم کے شعبہ میں دستوری حقوق سے محروم کردیا گیا۔ تعلیمی اسکیمات جیسے اسکالرشپ اور فیلو شپس کا خاتمہ کیا سب کا وکاس ہے ؟ شریعت میں مداخلت کرتے ہوئے قانون سازی کے ذریعہ اسلام کو نشانہ بنایا گیا۔ کیا یہی سب کا ساتھ ہے؟ مسلمانوں کو زائد بچے پیدا کرنے والا کہا گیا اور لباس کے ذریعہ مسلمانوں کی شناخت کی بات مودی نے کہی تھی ۔ کیا یہی سب کا ساتھ ہے ۔ بابری مسجد چھین لی گئی اور مسجد کی اراضی پر مندر تعمیر کردی گئی۔ اتنا ہی نہیں کئی اہم مساجد ، عیدگاہ اور درگاہوں پر مندر کی دعویداری پیش کی گئی ۔ ان تمام سرگرمیوں کو مودی کی خاموش سرپرستی حاصل رہی ۔ کیا یہی سب کا ساتھ سب کا وکاس ہے؟ بیف، لو جہاد اور دیگر عنوانات سے مسلمانوں کاخون بہایا گیا، کیا یہی سب کا ساتھ ہے ؟ اتراکھنڈ میں یکساں سیول کوڈ نافذ کردیا گیا اور اب گجرات کی باری ہے۔ ملک بھر میں یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کی تیاری ہے ۔ یہی مودی کا سب کا ساتھ سب کا وکاس نعرہ کی حقیقت ہے ۔ اوقافی جائیدادوں کو ہڑپنے کیلئے قانون پارلیمنٹ کی منظوری کے لئے تیار ہے ۔ یہ بھی شائد سب کا وکاس نعرہ کا حصہ ہے۔ این آر سی ، سی اے اے اور این پی آر کے ذریعہ مسلمانوں کی شہرت کو ختم کرنے کی منصوبہ بندی سب کا وکاس کا حصہ نہیں تو کیا ہے ۔ ملک کے مسلمان مودی حکومت سے سوال کرتے ہیں لفظ ’’سب ‘‘ میں کیا مسلمان شامل نہیں؟ کیا مسلمان ملک کے شہری نہیں ہیں؟ کیا ملک میں مسلمانوں کو مساوی حصہ داری کا حق نہیں ہیں؟ ظاہر ہے کہ ان سوالات کا جواب تو مودی حکومت اپنے عمل کے ذریعہ دے رہی ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ دستور ہند نے مسلمانوں کو مساوی حقوق دیئے ہیں۔ پھر بھی مسلمان وکاس سے محروم کیوں ؟
دہلی اسمبلی چناؤ کے نتائج سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستان ایک جماعتی نظام کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کی سرپرستی میں بی جے پی سارے ملک پر کنٹرول حاصل کرنا چاہتی ہے، بھلے ہی اس کے لئے کچھ بھی کرنا پڑے۔ ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی الیکشن کمیشن اور الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی مہربانی کا نتیجہ ہے۔ سیاسی مبصرین اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ ملک میں آزادانہ اور منصفانہ رائے دہی کے لئے بیالٹ پیپر پر واپسی ضروری ہے۔ دنیا کا کوئی بھی ترقی یافتہ ملک الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ذریعہ الیکشن کو تسلیم نہیں کرتا لیکن واحد بی جے پی ہے جسے ووٹنگ مشینوں کی غیر جانبداری پر بھروسہ ہے۔ گزشتہ چند برسو ں میں ایک سے زائد مرتبہ الیکشن کمیشن اور الیکٹرانک مشینوں کی جانبداری بے نقاب ہوچکی ہے لیکن مرکزی حکومت کو مشینوں میں الٹ پھر سے متعلق ماہرین کی رائے قبول نہیں۔ دہلی اسمبلی الیکشن میں سیکولر ووٹس کی تقسیم نے بی جے پی کو فائدہ پہنچایا ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لوک سبھا انتخابات میں عام آدمی پارٹی قومی سطح پر کانگریس زیر قیادت انڈیا الائنس کا حصہ رہی لیکن اسمبلی چناؤ میں دونوں نے ایک دوسرے کے خلاف مقابلہ کرتے ہوئے بی جے پی کی کامیابی کی راہ ہموار کردی ہے ۔ مبصرین کا خیال بھی یہی ہے کہ نشستوں پر مفاہمت کے ذریعہ کانگریس اور عام آدمی پارٹی کو فر قہ پرست طاقتوں کی مدد سے گریز کرنا چاہئے تھا۔ ملک کے دارالحکومت دہلی میں اقتدار کا بی جے پی کا خواب تقریباً 25 برس بعد پورا ہوا ہے۔ سیکولر طاقتوں کو ملک میں فرقہ پرستوں کو شکست دینے کیلئے بعض قربانیاں دینی ہوں گی۔ محض چند نشستوں کے لئے ایک دوسرے پر الزام تراشی نے عوام کو مایوس کردیا۔ بی جے پی ملک میں ایک جماعتی نظام رائج کرنا چاہتی ہے تاکہ نریندر مودی کی ڈکٹیٹرشپ آگے بھی جاری رہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نریندر مودی نے قدرت سے عمر خضر لکھالی ہے کہ وہ ہمیشہ باقی رہیں گے۔ ہر انسان کو موت کا مزہ چکھنا ہے اور نریندر مودی طبعی عمر سے آگے بڑھ چکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ مودی کے بعد بی جے پی کا کیا ہوگا ؟ جو بھی خلاء پیدا ہوگا ، اس بارے میں بی جے پی کا تھنک ٹینک بے فکر ہے۔ دیگر قائدین کیلئے پارٹی میں عمر کی حد موجود ہے لیکن نریندر مودی پر یہ شرط لاگو نہیں کی گئی ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نریندر مودی سے مقابلہ کیلئے سیکولر طاقتوں کو معمولی اختلافات کو فراموش کرنا ہوگا۔ مصر سے تعلق رکھنے والی مشہور شاعرہ والا جمال نے کیا خوب کہا ہے ؎
نہ کر غرور اگر تو کمال رکھتا ہے
کہ ہر عروج یہاں پر زوال رکھتا ہے