کیاہم آزادہیں؟ ✍? حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ (سابق صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ)

,

   

یہاں کی مختلف قومیں اور مذاہب اپنے عقیدے اور مذہب اور اپنی تہذیب و ثقافت (Religion and culture) کے مطابق زندگی گزارنے اور اس کو اپنی آئندہ نسل تک منتقل کرنے اور اس کے مطابق تعلیم گاہیں ، مکاتب و مدارس قائم کرنے ، اپنی زبان میں لکھنے پڑھنے میں آزاد تھے، ان پر کوئی علم الأصنام (Mythology) مسلط کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی تھی، اس وقت انگریزی کی ریڈروں اور نصابِ تعلیم ( Curriculum) میں جانوروں کے قصے، کتے بلی کی حکایتیں اور تصویریں ، یا عالمی تاریخی شخصیتوں (Historical Personalities) کے قصے اور ان کا تعارف ہوتا، لیکن عیسائی مذہب (Christianity) کے حضرت عیسیؑ کے بارے میں ، عقیدۂ تثلیث (Trinity)یا صلیب (Cross)کی تصویر و تقدیس کی دعوت نہیں ہوتی تھی، اس لیے جن لوگوں کو مذہب سب سے زیادہ عزیز تھا، ان کو اس معاملہ میں کوئی بڑی تشویش نہ تھی، صرف مغربی تہذیب و معاشرت، مغربی فیشن اور مغربی تخیلات و معیار اور کسی کسی وقت مذہبی آزادی ، الحاد اور بے راہ روی کا ڈر رہتا تھا۔

        لیکن اب اس سلسلہ میں صورتِ حال مختلف ہے، اور بعض جماعتوں اور سیاسی پارٹیوں نے اپنے تعلیمی و تربیتی منصوبوں کا صاف اعلان کر دیا ہے اور کہہ دیا ہے کہ اب ایک ہی زبان ہندی رہے گی، نصاب کی کتابوں میں ایک خاص میتھالوجی (دیومالا) ہی داخل کی جائے گی، ایک بدلی ہوئی تاریخ پڑھائی جائے گی، آزاد مدارس و مکاتب کا قیام مشکل ہو جائے گا، وغیرہ وغیرہ۔

     حضرات! اب اس کے بعد دل کو تھام کر اور پوری معذرت کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بہت سے وہ لوگ جن کو اپنا مذہب عزیز ہے اور اپنے خاندانوں اور ہم قوموں کی عزت وناموس عزیز ہے، اور پھر اس سے آگے بڑھ کر ملک کا امن و امان اور پرسکون زندگی عزیز ہے، جس میں وہ دینی، اصلاحی ، تعلیمی، تصنیفی، ادبی اور فنی کام اور مشاغل اطمینان سے انجام دے سکیں ، اور اس سے بڑھ کر اپنی عبادت گاہیں ، درس گاہیں اور کتب خانے عزیز ہیں ، وہ اس زمانہ کو یاد کرنے لگے ہیں ، (خواہ وہ کتنا ہی غیر فطری تھا) جب یہ سب چیزیں عام طور پر محفوظ اور خارج از بحث تھیں۔