کیا اب مذہب اور ذات کی بنیاد پر فیصلے ہوں گے

   

روش کمار
آج کل بلقیس بانو کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ موضوع بحث بنا ہوا ہے اور اس فیصلہ کے کافی چرچے ہیں ۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت نے بلقیس بانو کی اجتماعی عصمت ریزی کے مجرمین اور ان کے ارکان خاندان کے قاتلوں کی سزا مکمل کرنے سے قبل ہی رہائی سے متعلق حکومت گجرات کے فیصلہ کو غلط قرار دے کر کالعدم کردیا اور تمام مجرمین و خاطیوں کو حکم دیا کہ وہ اندرون 2 ہفتے خود کو جیل حکام کے حوالے کردیں ۔ بہرحال بلقیس بانو کیس کا فیصلہ آگیا ہے اور عدالت عظمی کا یہ فیصلہ ایک ایسے وقت آیا ہے جب رام مندر کے افتتاح کے بہانہ وزیراعظم نریندر مودی کو وشنو اور شیو کا اوتار بتایا جارہا ہے ۔ رام کی مریادا کی علامت کی شکل میں انہیں پیش کرنے کی کوشش ہورہی ہے مگر اسی درمیان سپریم کورٹ کے فیصلہ سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ مہا پرش ( عظیم انسان ) اور وشنو اور شیو کے اوتار ہونے کے مستحق ہیں بھی یا نہیں ۔ وزیراعظم کی حیثیت سے انہیں مت دیکھئے ایک عام شہری کے ناطے انہوں نے قاتلوں اور زانیوں کی رہائی کی مخالفت نہیں کی ۔ گجرات انتخابات کے وقت قتل اور عصمت ریزی کے مجرمین کو پھول کے ہار پہنائے جارہے تھے ۔ بی جے پی کے رکن اسمبلی سی کے راول جی کا بیان آیا کہ یہ برہمن ہیں اور ان کے سنسکار اچھے ہیں وزیراعظم چپ رہے ۔ ان کی وزیر سمرتی ایرانی چپ رہی ، وزیر داخلہ امیت شاہ بھی خاموش رہے ۔ جب آپ اس مقدمہ کی تفصیلات کا مطالعہ کریں گے تو پتہ چلے گا کہ صرف قاتلوں اور زانیوں کو نہیں بچایا جارہا تھا اُس سوچ و فکر کو بھی بچایا جارہا تھا جس کے نام پر 11 لوگوں نے بلقیس بانو کی اجتماعی عصمت ریزی کی ان کے خاندان کے 7 ارکان کا انتہائی بہیمانہ انداز میں قتل کیا اور قیدی بن گئے قاتل بن گئے ۔ سپریم کورٹ نے اُس سوچ و فکر کو بھی ایک طرح سے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا ہے ۔ اب سوال سپریم کورٹ کے فیصلہ سے بھی بڑا ہے ۔ گجرات حکومت کو وزیراعظم نریندر مودی کو وزیر داخلہ امیت شاہ کو سپریم کورٹ کے اس ایک فیصلہ سے بچانے کیلئے گودی میڈیا کیا کرے گا؟ کیا آپ کو پتہ ہے اس فیصلہ کو گھر گھر پہنچایا جائے گا یا پھر میڈیا رام مندر کا کوریج اور بڑھادے گا تاکہ رام کو گھر گھر پہنچانے کے نام پر بی جے پی حکومت کے اس سیاہ کرتوں کو آپ تک پہنچنے سے روکا جاسکتے ۔کیا گودی میڈیا یہ سوال کرے گا کہ حکومت گجرات قاتلوں کا ساتھ دیتی ہوئی پکڑی گئی ہے کیا چیف منسٹر گجرات سے استعفے مانگا جائے گا ، کسی کے خلاف کارروائی ہوگی ؟ جس وقت زانیوں اور قاتلوں کی رہائی ہوئی اس وقت گجرات کے چیف منسٹر بھوپندر پٹیل تھے اب بھی وہی چیف منسٹر ہیں ۔ کیا میڈیا وزیراعظم نریندر مودی ، وزیر داخلہ امیت شاہ سے یہ سوال کرے گا کہ اتنے سنگین مجرمین کو رہا کرنے کی سفارش مرکزی وزارت داخلہ نے کیوں کی ؟ خود حکومت گجرات نے سپریم کورٹ میں کہا تھا کہ وزارت داخلہ کے کہنے پر رہا کیا گیا ۔ سپریم کورٹ کے جسٹس ناگارتنا اور جسٹس اجول کی بنچ نے کہا ہیکہ حکومت گجرات قتل اور عصمت ریزی کے معاملہ میں سزا پائے لوگوں کے ساتھ ملی ہوئی ہے ۔ ہمارا سوال ہے کیا وزیراعظم نریندر مودی اُس حکومت گجرات کے وزیراعلی سے استعفی مانگیں گے جس کے بارے میں سپریم کورٹ نے کہا ہیکہ قاتلوں اور زانیوں کے ساتھ ملکر اس نے کام کیا ۔ جسٹس ناگا رتنا نے آرڈر پڑھتے ہوئے کہا کہ عدالت مانتی ہے کہ رہائی کا حکم دینے کا اختیار حکومت گجرات کا نہیں تھا مہاراشٹرا حکومت کا تھا اس لئے عدالت نے رہائی کے فیصلے کو خارج کردیا ۔ عدالت نے کہا کہ ملزمین کی آزادی پر پابندی لگانا جائز ہے، انہوں نے آزادی یا رہائی کا حق تب ہی کھودیا جب مجروم اور خاطی پائے گئے اور جیل ہوئی ۔ اگر انہیں رہائی چاہئے تو جیل میں قانون کے دائرہ میں رہ کر اپیل کریں ۔ عدالت نے کہا کہ ہم مانتے ہیں کہ قانون کی حکمرانی تسلیم کئے بناء انصاف نہیں کیا جاسکتا ۔ اگر ایسا نہیں ہوگا تو عدالت کے احکامات مذاق بن کر رہ جائیں گے ان کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی ۔ عدالت کو انصاف کرنا ہے ۔ انصاف سے کنارہ کشی اختیار نہیں کرنی چاہئے ۔ حکومت گجرات نے سپریم کورٹ کے ایک حکم کا سہارا لیا اور اس معاملہ میں مجرمین کو رہا کردیا اس حکم کے مطابق رہائی کا اختیار حکومت مہاراشٹرا سے حکومت گجرات کو دیا گیا اس بنیاد پر کہ جرم کا ارتکاب گجرات میں کیا گیا تھا ۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں کہا ہیکہ سپریم کورٹ سے 13 مئی 2022 کا وہ آرڈر فراڈ کے ذریعہ حاصل کیا گیا ، اس لئے وہ غیرقانونی ہے اور اس لئے رہائی کا حکم خارج کیا جاتا ہے کالعدم قرار دیا جاتا ہے ۔ عدالت عظمی نے کہا ہیکہ یہ ایک ’’ کلاسیک کیس ‘‘ ہے ۔ جب سپریم کورٹ کے حکم کا استعمال قانون کو توڑنے کیلئے کیا گیا تاکہ مجرمین کی رہائی ہو ۔ سپریم کورٹ نے مزید کہا کہ یہ ریاستی حکومت کی جانب سے اپنے اقتدار و اختیارات کا بیجا استعمال ہے اور اقتدار کو ہڑپنے کا معاملہ ہے اس بنیاد پر بھی اس حکم کو کالعدم قرار دیا جانا چاہئے ۔ آج رام کی مریادا کی ساری سمجھ داؤ پر ہے بی جے پی کی حکومت پر قتل اور عصمت ریزی کے مجرمین کے ساتھ ملکر کام کرنے کا صرف الزام نہیں بلکہ ثبوت پایا گیا ہے ۔ عدالت نے حکومت گجرات کے فیصلہ کو رد کردیا کہا کہ حکومت ان قاتلوں کے ساتھ ملی ہوئی تھی ۔ بتائے کہ کسی حکومت پر کب آپ نے سنا کہ عدالت نے کہا ہو کہ وہ قاتلوں اور عصمت ریزی کرنے والوں کے ساتھ ملی ہوئی تھی ۔ اب سوال یہ ہیکہ کیا رام کی مریادا کا احترام کہا جائے گا ۔ دستوری مریادا کا تو ہم نے ذکر بھی نہیں کیا کیونکہ کروڑہا روپئے جھونک کر لاکھوں کارکن اتار کر درجنوں اینکر اتار کر ملک کو رام مایا بنایا جارہا ہے تو رام کے وقار کی ہی بات کرتے ہیں ۔ بی جے پی قائدین کارکن اور حامیوں سے لیکر ہاوزنگ سوسائٹیوں کے انکلس اور آنٹیاں اس بات کو بھی ہضم کر جائیں گی یا وہ سوال کریں گے کہ وزیراعظم نریندر مودی کی ریاست گجرات کی حکومت پر قاتلوں اور زانیوں کے ساتھ ملکر کام کرنے کے ثبوت ملے ہیں تو ایسے میں وزیراعظم نریندر مودی کو کیا کرنا چاہئے تب کیا کرنا چاہتے تھا اور اب کیا کرنا چاہئے ۔ کیا گھر گھر آرہے ان کارکنوں سے ملک کی خواتین پوچھیں گی کہ رام کی پوجا کرتے ہیں لیکن قاتلوں اور زانیوں کو چوری چھپے رہا کرواتے ہیں اور وزیراعظم کچھ کہتے کیوں نہیں ۔ کیا وزیراعظم سے یہ سوال ملک کی خواتین پوچھ پائیں گی یا اس پر بھی خاموش رہیں گی ۔ اس طرح کے پروگرامس سے ماحول بنایا جارہا ہے ۔ لیکن کیا خواتین دیکھ سکیں گی ملک کے عوام کو دیکھئے گا کہ رام کے نام پر ان سے کیا کیا چھپایا جارہا ہے ؟ ۔ سپریم کورٹ نے بلقیس بانو کے ساتھ اجتماعی عصمت ریزی کرنے والے اس کی بچی کو قتل کرنے والے اور اس کے دیگر رشتہ داروں کے قتل جیسے الزامات میں سزا پائے ان تمام 11 لوگوں کو جیل بھیجنے کی ہدایات دی ہیں جنہیں گجرات انتخابات کے وقت رہا کیا گیا تھا ان کی رہائی 15 اگسٹ کے دن کی گئی اس دن آزادی کا امرت مہا اُتسو منایا جارہا تھا اور امرت اور آزادی دی جارہی تھی قاتلوں کو بہرحال اندرون دو ہفتہ ان مجرمین کو خود سپردگی کرنی پڑے گی۔ عدالت نے کہا کہ گجرات حکومت کا فیصلہ اختیارات کا بیجا استعمال تھا ۔ آپ سوچئے یہ بیجا استعمال کس کیلئے کیا گیا جنہیں قتل اور عصمت ریزی کے معاملہ میں سزا سنائی جاچکی تھی۔ کیا یہ معاملہ سیاسی نہیں ہے ؟ کیا بنا ان کی سیاسی ضرورت کے کوئی بھی حکومت یہ فیصلہ لے سکتی تھی ؟ عدالت نے کہا کہ حکومت گجرات کے پاس ایسا کرنے کا کوئی اختیار اور حق ہی نہیں تھا۔ آپ کسی زانی اور قاتل کو رہا کررہے ہیں تب کررہے ہیں جب آپ کو اس کا کوئی اختیار نہیں ۔ صاف ہے گجرات اسمبلی انتخابات میں ماحول بنانے کیلئے یا کسی دوسرے نامعلوم سیاسی مقصد کیلئے کیا گیا ہوگا ۔ یہ لڑائی میڈیا نے نہیں لڑی مہوہ موئترا نے لڑی جنہیں پارلیمنٹ سے نکالدیا گیا جن کے خلاف گودی میڈیا نے ایک تحریک چلائی جن کے کردار کا قتل کیا گیا ’’ مہوہ موئترا پارلیمنٹ میں ہار گئیں ، میڈیا کے سامنے شکست سے دوچار ہوئیں مگر ان کی ایک درخواست نے اس سچ کو سامنے لایا جو دکھ تو سب کو رہا تھا مگر کوئی آواز نہیں اُٹھاپا رہا تھا ۔ بلقیس بانو بے شک اصل درخواست گزار تھیں مگر ان کے ساتھ ترنمول کانگریس لیڈر مہوہ موئترا سابق رکن پارلیمنٹ سبھاشنی علی ، پروفیسر روپ ریکھا ورما اور صحافی ریوتی لال نے بھی 2022 میں مجرمین کی رہائی کے بعد عدالت میں اپنی درخواستیں دائر کی اور بلقیس بانو کا ساتھ دیا ۔ ایک بار پھر سے اس لڑائی میں وکیل کپل سبل وکیل شوبھا گپتا اور وکیل گرور کے ساتھ ساتھ ابھیشک منو سانگھوی نے پیروی کی اور یہ لڑائی لڑی اور سبھاشنی علی نے اپنی درخواست میں کہا تھا کہ یہ ناانصافی ہے ۔ انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں پر زور انداز میں کہا تھا کہ کیا نئے بھارت میں انصاف مجرم کے مذہب اور ذات دیکھ کر ہوگا ؟ ان کا کہنا تھا کہ آخر حکومت گجرات قاتلوں اور زانیوں کو کیوں بچا رہی ہے ؟ کیا اس کی مجبوری ہیکہ وہ کسی حد تک جانے کیلئے تیار تھی ان مجرمین کو بچانے کیلئے صرف ان کو رہا ہی نہیں کیا اُن کو بچانے کیلئے اپنی ساری طاقت و توانائی حکومت گجرات نے جھونک دی ۔ گجرات کی حکومت اور مرکزی حکومت نے جھونک دی ۔ آخر کیوں ؟ کیا بی جے پی کی جو حکومتیں ہیں وہ زانیوں اور قاتلوں کو بچانے والی حکومتیں ہیں ؟ کیا وہ یہ پیغام دے رہی ہیں کہ جو لوگ ان کی جیسی سوچ و فکر رکھنے والے ہیں ان کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں وہ چاہے ریپ کریں یا قتل کریں ان کا بال بانکا نہیں ہوگا ۔ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی کیا وہ کہہ رہے ہیں کہ خواتین کے ساتھ سنگین جرائم کرنے والوں کو بھی پوری طرح سے حکومت کی طرف سے تحفظ فراہم کیا جارہا ہے اگر ایسی بات ہے تو یہ ہمارے ملک کیلئے بہت خطرناک ہے اب بنارس ہندو یونیورسٹی کا معاملہ بھی سامنے آیا ہے جس میں تین نوجوان جو بی جے پی سے تعلق رکھتے ہیں ان لوگوں نے ایک طالبہ کے ساتھ جو بدتمیزی کی جس سے بدسلوکی کی ابھی وہ بات منظر عام آئی ہے دو ماہ تک پولیس نے ان کے خلاف کارروائی نہیں کی ۔ برج بھوشن سنگھ کا معاملہ ہمارے سامنے ہے تو آخر ہمارے ملک میں کیا ہورہا ہے ؟حکومت قانون کی حکمرانی اور انصاف کے تقاضوں سے دور ہٹ رہی ہے ۔ کیا ہمارے ملک میں اب منوسمرتی کی بنیاد پر انصاف کا عمل چلے گا جو خاطی اور مجرم ہے اس کا مذہب اور اس کی ذات پات دیکھی جائے گی اور جس کے ساتھ جرم ہوا ہے اس کے مذہب اور اس کی ذات کو دیکھا جائے گا اس کے بعد سزا سنائی جائے گی یہ بہت بڑے اور سنگین سوالات ہیں جن پر لوگوں کو اب سوچنا پڑے گا اب عدالت نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ یہ لوگ مہاراشٹرا جاسکتے ہیں اور وہاں بی جے پی حکومت ہے تو وہاں کیا ہوگا ؟ یہ بڑے سوالات ہیں جو لوگ بھی اس ملک میں عورتوں کمزوروں کا تحفظ چاہتے ہو انہیں ان سوالات کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ہوگا ۔