کیا اے آئی ایم آئی ایم قومی پارٹی کے طور پر ابھر سکتی ہے؟

, ,

   

حیدرآباد: حیدرآباد لوک سبھا کے رکن اسدالدین اویسی کی زیرقیادت آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کی نظریں اسوقت سارے ہندوستان میں ہیں.. حال ہی میں منعقدہ بہار کے انتخابات میں فتح کے بعد اے آئی ایم آئی ایم اپنی پوری کوشش کر رہی ہے کہ آئندہ ہونے والے ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں کامیابی حاصل کی جائے…دی ایشین ایج کے مطابق جس پارٹی نے کئی دہائیوں تک خود کو حیدرآباد تک محدود رکھا تھا ، اس کا امکان ہے کہ وہ گجرات ، مغربی بنگال ، تمل ناڈو ، مدھیہ پردیش ، اتر پردیش اور کرناٹک میں اسمبلی انتخابات لڑ سکتی ہے۔اس سے قبل پارٹی کے سربراہ اسد الدین اویسی نے واضح کیا تھا کہ اے آئی ایم آئی ایم کیرالہ ، آسام اور جموں و کشمیر کے علاوہ تمام ریاستوں میں مقابلہ کرے گی۔حال ہی میں یہ دیکھا گیا ہے کہ پارٹی دلتوں اور اقلیتوں کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرنے والی علاقائی پارٹیوں کے ساتھ ہاتھ ملا رہی ہے۔

تمل ناڈو میں مجلس

نومبر کے مہینے میں اویسی نے اعلان کیا تھا کہ ان کی پارٹی اپریل سے مئی 2021 میں ہونے والی تامل ناڈو اسمبلی کا انتخاب لڑے گی۔جمعہ کے روز ڈریوڈا مننیترا قھاگم (ڈی ایم کے) اقلیتی ونگ کے سکریٹری ڈاکٹر مستان نے اویسی صاحب سے حیدرآباد میں ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی اور انہیں ڈی ایم کے کانفرنس کے لئے مدعو کیا ، جس کا انعقاد 6 جنوری کو چنئی میں ہونا ہے۔ایم کے اسٹالن کی زیرقیادت ڈی ایم کے مرکزی اپوزیشن کی ایک اہم جماعت ہے جو تمل ناڈو اسمبلی انتخابات میں حکمران آل انڈیا انا دراویڈا مننیترا کھاگام کے خلاف مقابلہ کرے گی۔

مغربی بنگال اسمبلی انتخابات

مغربی بنگال میں جہاں مسلم آبادی تقریبا 27 فیصد ہے ، گذشتہ سال اس پارٹی نے 25 سے زیادہ جلسوں کا اہتمام کیا تھا۔ ریاست کے تمام بیشتر اضلاع میں بھی اس کی اکائیاں ہیں۔پارٹی کی توجہ بنیادی طور پر دناج پور ، مالڈا ، ہوراڑہ ، کوک بہار ، برھموم ، آسنسول ، نادیہ اور کولکتہ پر ہے۔پارٹی کے لئے سب سے بڑی رکاوٹ زبان ہے۔ اردو بولنے والے مسلمانوں میں پارٹی کی مضبوط گرفت ہے جبکہ بنگالی بولنے والے مسلمان اب بھی ممتا کو اپنا قائد مانتے ہیں۔

مجلس اتحاد المسلمین گجرات کے اگلے اسمبلی انتخابات میں حصہ لے گی

حال ہی میں اورنگ آباد لوک سبھا کے رکن پارلیمنٹ سید امتیاز جلیل نے کہا کہ مجلس اگلے اسمبلی انتخابات گجرات میں بھارتیہ قبائلی پارٹی (بی ٹی پی) کے ساتھ اتحاد میں لڑے گی۔انہوں نے مزید کہا ، “ہم گجرات میں الیکشن لڑ رہے ہیں کیونکہ ریاست کے عوام چاہتے ہیں کہ اے آئی ایم ایم پارٹی انتخابات لڑے۔ پارٹی کے سربراہ اسد الدین اویسی نے مجھ سے گجرات کا دورہ کرنے اور بی ٹی پی رہنماؤں سے بات چیت کرنے کو کہا ہے۔

اترپردیش کی سیاست

اترپردیش میں بھی اوم پرکاش راجبھیر کی زیرقیادت محاذ کے حصے کے طور پر اے آئی ایم آئی ایم اسمبلی انتخابات لڑنے کا امکان ہے۔اس محاذ میں بہوجن سماج پارٹی کے سابق رہنما بابو سنگھ کشواہا کی جان اتھارکر پارٹی ، بابو رام پال کی قیادت والی راشٹرا اوئے پارٹی ، انیل سنگھ چوہان کی قیادت والی جنتا کرانتی پارٹی اور پریم چند چند پرجاپتی کی راشٹریہ اپکشیٹ سماج پارٹی شامل ہیں۔

کیا مجلس قومی پارٹی بن سکتی ہے؟

قانون کے مطابق اگر کسی جماعت نے مندرجہ ذیل شرائط کو پورا کیا تو وہ قومی پارٹی بن سکتی ہےکم از کم تین مختلف ریاستوں سے دو فیصد لوک سبھا سیٹ جیتنا ضروری ہے۔کم از کم چار ریاستوں کے لوک سبھا یا اسمبلی انتخابات میں چھ فیصد ووٹ حاصل کریں اور چار لوک سبھا نشستوں پر کامیابی حاصل کریں.چار ریاستوں میں ریاستی پارٹی کی حیثیت سے پہچان حاصل ہے۔اگرچہ ایسا لگتا ہے کہ مستقبلاترپردیش میں بھی اوم پرکاش راجبھیر کی زیرقیادت محاذ کے حصے کے طور پر اے آئی ایم آئی ایم اسمبلی انتخابات لڑنے کا امکان ہے۔اس محاذ میں بہوجن سماج پارٹی کے سابق رہنما بابو سنگھ کشواہا کی جان اتھارکر پارٹی ، با قریب میں AIMIM کے لئے پہلی دو شرائط پوری کرنا مشکل ہے ، تاہم پارٹی کو تیسری شرط پوری کرنے کا امکان ہے۔اس پارٹی کو پہلے ہی دو ریاستوں یعنی تلنگانہ اور بہار میں ایک ریاستی پارٹی کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔