کیا بین الاقوامی کریمنل کورٹ کا کمپیوٹر سسٹم

   

جنگی جرائم کی حساس معلومات کیلئے ہیک کیا گیا؟
لندن : امریکہ اور ایران کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کم ہوگی یا نہیں۔ اور آنے والے دنوں میں حالات کیا رخ اختیار کریں گے، اور یہ تعطل کب تک قائم رہے گا، عالمی امور پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کے کے بقول یہ صورتحال بہت پیچیدہ ہے ، خاص طور سے ایسی صورت حال میں جب ایک جانب تو مشرق وسطیٰ اور خلیج کے کئی ملکوں سے اسرائیل کے تعلقات بہتر ہو رہے ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ دوسری جانب ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان 2015 میں ہونے والے اس ایٹمی معاہدہ کو بحال کرنے کے لئے جس سے 2018 میں اس وقت کے امریکی صدر ڈانالڈ ٹرمپ کی حکومت الگ ہو گئی تھی، بائیڈن حکومت اور ایران کے درمیان مہینوں تک جاری رہنے والے مذاکرات گزشتہ ستمبر سے التوا میں پڑے ہوئے ہیں۔ اسی صورت حال کے پس منظر میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں کہا کہ امریکہ کو 2015 کے کے معاہدہ کو بحال کر نے کیلئے اپنی خیر سگالی اور عزم کو ثابت کرنا چاہئیے۔
2021 میں منصب صدارت سنبھالنے کے بعد صدر جو بائیڈن نے اس معاہدے کو بحال کرنے کی کوشش کی تھی، جس کے تحت ایران نے اپنے اوپر عائد امریکی، یورپی اور اقوام متحدہ کی تعزیرات میں نرمی کے عوض اپنے نیوکلیر پروگرام کو محدود کردیا تھا۔ لیکن یہ مذاگرات نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکے اور گزشتہ ستمبر سے التوا میں پڑے ہوئے ہیں۔ تاہم کشیدگی کم کرنے کی ایک کوشش میں قطر کی وساطت سے امریکہ اور ایران کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کا ایک معاہدہ ہوا ہے،جسکے تحت دونوں نے ایک دوسرے کے پانچ پانچ قیدی رہا کردئیے اور ایران کے جنوبی کوریا میں منجمد چھ ارب ڈالر کے اثاثے بھی امریکہ نے بحال کر دئیے۔