کیا تلنگانہ میں این پی آر ہوگیا ہے ؟

   

جامع سروے کے ڈاٹا کو مرکزی حکومت کے منصوبے پر استعمال کے امکانات

حیدرآباد۔6جنوری(سیاست نیوز) ریاست تلنگانہ میں نیشنل پاپولیشن رجسٹر تیار کرلیا گیا ہے؟ مسٹر سرینواس کوڈالی سائبر ماہر کی جانب سے کئے گئے دعوے کے بعد اب یہ بات ہر کسی کی زبان پر ہے کہ حکومت تلنگانہ نے 2014میں کئے گئے جامع سروے کے نام پر اپنے قومی آبادی کے رجسٹر کو تیار کرلیا ہے۔ انہو ںنے کہا کہ حکومت تلنگانہ کی جانب سے ریاست میں کئے گئے جامع سروے کے علاوہ ریاست میں فلاحی اسکیمات کے استفادہ کنندگان کی تفصیلات کو این پی آر میں اندارج کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ مسٹر سرینواس کوڈالی کے مطابق شہر حیدرآباد ہی نہیں بلکہ ریاست کے تمام اضلاع میں کئے گئے اس جامع سروے میں عوام سے جو تفصیلات اکٹھا کی گئی ہیں ان کو مرکزی حکومت کے منصوبہ کے مطابق استعمال کرنے کے مکمل امکانات ہیں کیونکہ ریاستی حکومت کی جانب سے جو سروے کیا گیا تھا اس سروے میں بھی بنیادی طور پر وہی سوالات کئے گئے تھے اس سروے کے دوران مسئلہ کو تلنگانہ اور آندھرا کے مسئلہ کے طور پر دیکھا جا رہا تھا لیکن اب جو صورتحال ہے اس میں حکومت اس جامع سروے کی تفصیلات کو مرکزی حکومت کے این پی آر میں استعمال کرنے کے موقف میں ہے اگر ایسا کیا جاتا ہے تو یہ نہ صرف مسلمانوں کیلئے بلکہ دیگر اقلیتوں کیلئے بھی انتہائی خطرناک ثابت ہونے کا خدشہ ہے۔ حکومت نے 19 اگسٹ 2014 کو جامع سروے کے ذریعہ ریاست کے تمام مکینوں کا سروے کروایا تھا اور اس سروے کیلئے تمام مکینوں کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ اپنے آبائی مقام اور رہائش پر موجود رہیں تاکہ سروے کنندگان کو سروے میں کوئی دشواری نہ پیش آئے ۔ اس جامع سروے کے دوران بھی عوام کی جانب سے کئی شکایات موصول ہوئی تھیں کہ ان کے مکان تک سروے کرنے والے نہیں پہنچے ہیں۔ ریاست تلنگانہ میں کروائے گئے اس جامع سروے کے دوران کس طرح کا سروے کیا گیا اور اس کا استعمال کس طرح سے کیا جا رہاہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ تشکیل تلنگانہ سے قبل خود تلنگانہ راشٹر سمیتی کی جانب سے یہ دعوے کئے جاتے رہے کہ ریاست تلنگانہ میں 12 فیصد مسلمان موجود ہیں اور انہیں ان کی آبادی کے تناسب کے اعتبار سے تحفظات کی فراہمی عمل میں لائی جائے گی لیکن جب سروے کا مکمل ڈاٹا تیار کرلیا گیا اور تحفظات کی فراہمی کے سلسلہ میں اقدامات کا مطالبہ شدت اختیار کرتا گیا تواس وقت حکومت نے اس بات کا انکشاف کیا کہ ریاست تلنگانہ میں مسلمانوں کی آباد ی کا تناسب 9 فیصد ہے اور اسی بنیاد پر ریاست تلنگانہ میں مسلمانوں کو تحفظات کی فراہمی کے سلسلہ میں اسمبلی میں قرارداد منظور کی گئی لیکن اس پر اب تک عمل آوری نہیں ہوپائی ہے۔ اسی طرح حکومت کی جانب سے کئے جانے والے اس سروے کے منفی اثرات دیگر فلاحی منصوبوں پر بھی واضح ہوچکے ہیں اور اب ڈاٹا کو این پی آر کے لئے بھی استعمال کیا جانے کا خدشہ پیدا ہوچکا ہے۔