’’کیا تمہارے پاپا دہشت گرد ہیں؟‘‘اسکولی بچوںکا مسلم طلبہ سے سوال

,

   

سیاسی قائدین اورمیڈیا کی مسلم مخالف زہرآلود پروپگینڈہ اب اسکولوںکی چہار دیواری میںداخل

نئی دہلی 18 نومبر (سیاست ڈاٹ کام) ملک میں مسلمانوں کے ساتھ تعصب پر مبنی سوچ و فکر اور رویہ سیاست اور مین اسٹریم میڈیا سے نکل کر اب دھیرے دھیرے اسکولوں کے کلاس رومس، پلے گراؤنڈس میں پہونچ چکا ہے۔ ٹی وی چیانلوں پر رات دن ہندو مسلم مباحثے اور سیاسی قائدین کی جانب سے آئے دن مسلم مخالف پروپگنڈہ سے اب معصوم بچوں کا ذہن بھی آلودہ ہوچکا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اسکولوں میں ہندو طلبہ اپنے مسلم ساتھیوں کو دہشت گرد، پاکستانی جیسے طعنوں سے اُنھیں پکارتے ہیں۔ دہلی اسکول میں زیرتعلیم 9 سالہ زویا اُن ہی میں سے ایک طالبہ ہے جنھیں اُن کے کلاس ساتھی سوال کرتے ہیں کہ کیا تمہارے والد دہشت گرد ہیں؟ کیا تم پاکستانی ہو؟ کیا تمہارے والد گھر میں بم بناتے ہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کی وجہ سے آئے دن زویا کو ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ زویا کے ساتھیوں کے ذہن میں یہ سوالات اُس وقت اُبھرے جب زویا کے اسکول بیگ میں اُن کے والد کی باریش تصویر دیکھی۔ جس کے بعد اس طرح کے متعصبانہ رویہ پر مبنی سلوک کا اُسے سامنا کرنا پڑا۔ نفرت پر مبنی سوچ کا یہ عالم ہے کہ اب زویا کے ساتھی لنچ بھی ساتھ کرنا نہیں چاہتے۔ زویا کے والد عرفان احمد جوکہ ایک جرنلسٹ ہیں، کہتے ہیں کہ زویا کے کلاس ساتھی یہ سمجھتے ہیں کہ تمہاری بیٹی گوشت کھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کی مسلمان دال اور چپاتی نہیں کھاتے، کیا مسلمانوںکے گھروںمیں سبزیاں نہیں بنتیں؟انہو ںنے کہا زہرآلود سیاسی ماحول اور متعصب میڈیا کے سبب اب یہ عام احمقانہ شبیہ بنا دی گئی ہے کہ مسلمان ہمیشہ گوشت ہی کھاتے ہیں۔انہوںنے کہا کہ وہ اپنی دختر کو یہی سکھایا ہے کہ وہ اس قسم کے تعصب پسندانہ رویہ کے خلاف ڈٹ کرمقابلہ کریں۔تاہم اس معاملے میں زویا اکیلی نہیں ہیں،فاطمہ نامی مسلم خاتون بھی اپنے 11سالہ بیٹے عبدل کے ساتھ اسکول میں پیش آئے واقعات کے بارے میںبتاتے ہوئے کہتی ہیں کہ ،انکے فرزندکوبھی بنگلورکے اسکول میں اپنے ہم جماعت ساتھیوںسے اسی طرح کے تکلفیف دہ ریوںکا شکارہونا پڑاہے۔وہ کہتی ہیں کہ ایک روز اسکول سے واپسی کے بعد عبدل نے ان سے سوال کیا ماں ’’کیا مسلمان ہونا بری بات ہے ؟ ‘‘ اس نے اپنی نم آنکھو ں کے ساتھ کہا اب وہ واپس اسکول نہیں جانا چاہتا ،انکے ساتھی انہیں پاکستانی کہہ کر بلاتے ہیں۔فاطمہ نے بتا یا کہ انکے فرزند سے کہا گیا کہ بحیثیت مسلم اسے ہندوستان میں رہنے کا کوئی حق نہیںہے ،انہیں پاکستان چلے جانا چاہئے۔عبدل سے بار بار کہا گیا کہ سارے مسلمان دہشت گرد ہوتے ہیں۔بعدازاں فاطمہ نے جب اس کی اسکول انتظامیہ سے اسکی شکایت کی اورکہا کہ اس مسئلے پروہ پولیس سے رجوع ہوسکتی ہیں تب جاکریہ مسئلہ ختم ہوا،اور شرپسند طلبہ نے ان سے معذرت طلب کرلی۔سماجی جہدکاراور مصنف نتاشا دبدھوار نے اس سلسلے میں کہا کہ ،مخالف پاکستان،مخالف کشمیر،اورمخالف بنگلہ دیش ایک ایسی منفی پروپگینڈ ہے جسے ملک میں بڑے میڈیا اداروںکی جانب سے وسیع پیمانے پر پھیلایا گیا ہے،جس میں بدقسمتی سے ریاستی اورمرکزی حکومتوںکا بھی تعاون رہا ہے۔نتیجتاً آج مسلمانوںکوآ ج ملک کیلئے ایک خطرہ تصورکیا جارہا ہے۔