کیا عآپ ، کانگریس کا متبادل بن رہی ہے …

   

پرانیت پاٹھک
عام آدمی پارٹی کے بارے میں کچھ سال قبل یہی تاثر پایا جاتا تھا کہ یہ ایک ایسی پارٹی ہے جو بلدیات تک ہی محدود ہے، لیکن اس پارٹی نے سارے ملک کو بتا دیا کہ بلدیات سے ریاستوں تک کس طرح اپنی سرگرمیوں کو وسعت دی جاسکتی ہے اور بلدی انتخابات سے لے کر اسمبلی انتخابات تک کیسے کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ ہندوستان کی سب سے زرخیز کہلائی جانے والی ریاست پنجاب میں غیرمعمولی کامیابی نے عام آدمی پارٹی کے عزائم و حوصلوں کو بہت بڑھا دیا ہے اور وہ ہندوستان کی پانچویں ایسی سیاسی جماعت بن گئی ہے جس نے اپنی سرگرمیوں کو دہلی سے باہر وسعت دینے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ آج عام آدمی پارٹی دو ریاستوں دہلی اور پنجاب میں حکمرانی کررہی ہے اسی طرح کانگریس کو بھی صرف دو ریاستوں میں اقتدار حاصل ہے۔ اگر دیکھا جائے تو کانگریس 2014ء کے بعد سے ہی زوال اور بحران کا شکار ہے۔ اس نے 2014ء کے بعد سے صرف پانچ ریاستوں میں ہی کامیابی حاصل کی جبکہ اسے مسلسل دوسری مرتبہ پارلیمانی انتخابات میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اس کے برعکس عام آدمی پارٹی ایک اور ریاست جیت لی ہے۔ اب یہ حال ہوگیا ہے کہ عآپ کو قومی پارٹی اور کانگریس کا امکانی و فطری متبادل کہا جارہا ہے۔ عام آدمی پارٹی نے گجرات، ہماچل پردیش، کرناٹک اور دوسری ریاستوں میں بھی سرگرم ہوجانے کا اعلان کیا ہے۔ آخر کیا وجوہات ہیں کہ عام آدمی پارٹی ملک کی اصل اپوزیشن جماعت کے طور پر کانگریس کا متبادل ہوگی۔ اگر دیکھا جائے تو ملک میں استحکام کے باوجود معاشی نمو، روزگار کی فراہمی، انسدادِ غربت، بھوک و افلاس کا خاتمہ، ناقص غذا کی روک تھام اور صحت عامہ اور تعلیم کے مسائل ہنوز برقرار ہیں۔ ملک کی معیشت ابتر دکھائی دیتی ہے، حکومت نے ملک سے بھوک و افلاس مٹانے ڈھیر سارے دعوے کئے لیکن وہ دعوے بھی جھوٹے نکلے۔ ناقص غذا کا شکار ہوکر آج بھی بے شمار بچے پانچ سال کی عمر سے پہلے ہی اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں اور جو بچ جاتے ہیں ان کی جسمانی نمو نہیں ہو پاتی۔ غربت کا یہ حال ہے کہ بے شمار شرمناک واقعات غربت کے نتیجہ میں پیش آتے ہیں۔ صحت عامہ کے انتظامات کی پول کورونا وائرس کی دوسری لہر کے دوران پوری طرح کھل گئی اور تعلیمی شعبہ کا کیا حال کیا جارہا ہے، یہ سب جانتے ہیں۔ صنفی مساوات بھی متاثر ہوچکے ہیں۔ غرض ملک کئی ایک بحرانوں کا شکار ہے، ان حالات میں کوئی سیاسی جماعت اگر غیرمعمولی اصلاحات نافذ کرتے ہوئے عوام کی ترقی اور بہبود کیلئے اقدامات کرتی ہے تو پھر اس کی کامیابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں جس طرح عام آدمی پارٹی کے امکانات بڑھ چکے ہیں۔ ان حالات میں عام آدمی پارٹی کلیدی اپوزیشن کے طور پر اُبھر سکتی ہے اور عوامی مسائل حل کرنے کے بارے میں بظاہر اس کا ریکارڈ دیگر پارٹیوں سے بہتر دکھائی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب جیسی کانگریس زیرقیادت ریاست میں بی جے پی اقتدار پر فائز ہونے میں ناکام رہی جبکہ عام آدمی پارٹی کو کامیابی حاصل ہوئی۔ کانگریس کو جب بھی اقتدار ملا، وہ بہتر انداز میں اور خاص طور پر وقت کے ساتھ چلنے والے انداز حکمرانی کو اپنانے میں ناکام رہی جبکہ عام آدمی پارٹی نے دہلی ماڈل کو اپنایا اور بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ وہ گجرات کے ماڈل پر عمل کررہی ہے۔ عام آدمی پارٹی نے خود کو ایک متبادل کے طور پر پیش کیا ہے اور اس نے معیارِ زندگی کے مصارف کو کم کیا اور عام لوگوں کی آمدنی میں ویلفیرازم کے شعبہ میں اختراعات کے ذریعہ اضافہ کیا۔ ساتھ ہی مختلف شعبوں میں ان کیلئے ترقی کے مواقع بڑھائے۔ اسی طرح صحت عامہ اور نظام تعلیم کو کئی ایک اصلاحات کے ذریعہ سدھارتے ہوئے سماج کے محروم طبقات کی ان شعبوں تک رسائی کو یقینی بنایا۔ عام آدمی پارٹی نے خدمات کے شعبہ میں بھی بہتری لائی۔ ٹیکنالوجی کے استعمال اور مختلف اسکیمات کی فراہمی کی ساخت کو اپ ڈیڈ کیا۔ مثال کے طور پر عوام کی دہلیز تک خدمات کی فراہمی، پانی کی سربراہی اور سیوریج نیٹ ورک تک ان کی رسائی جیسے اقدامات شامل ہیں۔ جہاں تک مودی کی قیادت میں کانگریس کے مقابلے بی جے پی کی کامیابی کا سوال ہے، اس ضمن میں کہا جاتا ہے کہ بی جے پی نے کانگریس کو ہندو دشمن اور قوم دشمن پارٹی کی حیثیت سے پیش کیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کانگریس اپنے رائے دہندوں کے قابل لحاظ حصے کیلئے اَچھوت بن گئی۔ بی جے پی نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ان رائے دہندوں کو ایک طرح سے اُچک لیا اور اس کیلئے تہذیبی و سماجی نعرہ دیا اور خود کو قوم پرست اور ہندو مفادات کے محافظ کے طور پر پیش کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہندوتوا اور قوم پرستی کی جذباتی اپیل نے کام کرنا شروع کیا اور بی جے پی نے رائے دہندوں کے ساتھ ایک ایسا بندھن یا تعلق پیدا کیا جس سے اس کی حکمرانی کی ناکامی پس منظر میں چلی گئیں۔ جب بھی حکومت کی ناکامیاں منظر عام پر آئیں ، رائے دہندوں اور قوم پرستی پر مبنی وہ تعلق آگے آیا اور ناکامیوں پر پردہ پڑ گیا۔ عام آدمی پارٹی نے بھی بی جے پی کی پالیسیوں میں سے بعض کو بڑی کامیابی سے اپنایا ۔ مندروں کے دورے کئے ، شہداء کیلئے ایک کروڑ روپئے معاوضے کا اعلان کیا، ترنگا یاترا شروع کی اور تیرتھ یاترا یوجنا کا آغاز کیا اور خود کو مذہبی و تہذیبی مباحث میں شامل رکھا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ جس وقت عام آدمی پارٹی کے کنوینر اور چیف منسٹر دہلی اروند کجریوال پر ہندو مخالف ہونے کے الزامات عائد کئے گئے تب انہوں نے اس کا فوری جواب دیتے ہوئے ’’ہنومان چالیسا‘‘ پڑھ کر سنا دیا اور خود کو ’’ہنومان بھگت‘‘کے طور پر پیش کیا۔ انہوں نے ہنومان چالیسا کے ذریعہ ہندوتوا اور قوم پرستی کا دعویٰ کرنے والی بی جے پی کو منہ توڑ جواب دیا اور بی جے پی قائدین کے منہ بند ہوگئے۔ تنقید کرنے والے بھی ان کی تعریف کرنے پر مجبور ہوگئے۔ اروند کجریوال اچھی طرح جان گئے کہ فی الوقت ملک میں مذہبی خطوط پر لوگوں کو تقسیم کرنے اور تخریبی مسائل کے ذریعہ سیاسی طور پر بہت کچھ فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ بہرحال پنجاب میں کامیابی کے ذریعہ انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ترقیاتی ایجنڈہ کی بنیاد پر بھی انتخابات جیتے جاسکتے ہیں۔ اروند کجریوال کی عام آدمی پارٹی نے اچھی طرح اندازہ کرلیا کہ بی جے پی ہندوتوا کے نام پر اور ہندوؤں کے ماضی میں متاثر ہونے اور ناانصافیوں کا شکار بننے جیسے نظریہ کو پھیلایا ، اس طرح کجریوال نے پالیسی کو آگے بڑھاتے ہوئے حکمرانی کے مسائل پر انتخابات کا سامنا کیا۔ یعنی انہوں نے ہندوؤں کو بھی ناراض نہیں کیا اور بی جے پی اور کانگریس کے مقابلے کامیابی حاصل کی۔ دیکھا جائے تو اروند کجریوال ، راہول گاندھی کی بہ نسبت ایک کرشماتی اور مسابقتی لیڈر کے طور پر ابھرنے میں کامیاب رہے۔ راہول گاندھی کا المیہ یہ ہے کہ وہ حکمرانی کے کسی عہدہ پر فائز نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ عوام میں اپنی اہلیت حکمرانی کے بارے میں اعتماد پیدا کرنے کے قابل نہیں جبکہ کجریوال ایک نہیں بلکہ تیسری مرتبہ چیف منسٹر منتخب ہوئے ہیں اور عوام نے انہیں ان کی حکمرانی کے ریکارڈ کی بنیاد پر دوبارہ منتخب کیا۔ کجریوال تنظیمی ڈھانچہ میں اہم کردار ادا کرنے والے ایک بہترین ایڈمنسٹریٹر ہیں اور عوام کو اپنی دلیلوں کے ذریعہ قائل بھی کرتے ہیں جبکہ راہول گاندھی کو بی جے پی والوں نے ایک منظم انداز میں بدنام کیا ت ان کی امیج خراب کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام کے سامنے ان کی شبیہ ایک ’’بدعنوان موروثی سیاست‘‘ جو زوال سے دوچار ہے ، اس کے نالائق نمائندے کے طور پر ابھری ہے اور اس کے لئے بی جے پی اور اس کے آئی ٹی سیل ذمہ دار ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ راہول گاندھی کو اس طرح پیش کیا جارہا ہیں کہ وہ مودی کا متبادل نہیں ہے جبکہ کجریوال کو خود اپنی امیج آپ بنانے والے شخص کے طور پر پیش کیا جارہا ہے ، اس کے علاوہ کجریوال کو ہندوستانی رائے دہندوں کے سامنے ایک آئی آئی ٹی اور سیول سرویسیس کے مسابقتی امتحانات میں کامیاب ہونے والے آفیسر کی حیثیت سے پیش کیا گیا ، اسی طرح سماجی خدمات کیلئے میگسیسے ایوارڈ جیتنے والے کی حیثیت سے بھی پیش کیا گیا اور سارے ملک میں انسداد بدعنوانی کے جہد کار کی حیثیت سے بھی انہیں مشہور کردیا گیا۔ اس طرح اب یہ کہا جارہا ہے کہ وہ عوام اور اپوزیشن کو متحد کرتے ہوئے مودی کیلئے ایک چیلنج بن سکتے ہیں۔