عامر شکیل، محمد علی شبیر کی شکست میں اہم رول، اکثریتی رائے دہندوں نے مسلم امیدواروں کو مایوس کیا
حیدرآباد۔/3 ڈسمبر، ( سیاست نیوز) اسمبلی میں ہمارے علاوہ کوئی اور مسلمان چہرے کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ تلنگانہ اسمبلی کے نتائج کے بعد یہ واضح ہوچکا ہے کہ مجلس کسی اور پارٹی سے مسلم چہرے کو ایوان اسمبلی میں دیکھنا نہیں چاہتی۔ اسمبلی میں اس مرتبہ بی آر ایس اور کانگریس سے ایک بھی مسلم قائد منتخب نہیں ہوسکا جس کے لئے مجلسی قیادت مکمل طور پر ذمہ دار قرار پاتی ہے۔ یوں تو بی آر ایس اور کانگریس نے چند مسلم امیدواروں کو میدان میں اتارا تھا لیکن 4 امیدوار ایسے تھے جن کی کامیابی کے امکانات روشن تھے لیکن مجلس کی پالیسی کے نتیجہ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ بی آر ایس سے عامر شکیل بودھن اسمبلی حلقہ سے انتخابی میدان میں تھے جبکہ کانگریس کے ٹکٹ پر محمد علی شبیر نظام آباد( اربن)، محمد اظہر الدین ( جوبلی ہلز ) اور فیروز خاں (نامپلی) سے مقابلہ کررہے تھے۔ بودھن میں عامر شکیل سے سیاسی اختلافات کے سبب مقامی قیادت نے اپنے کونسلرس اور مقامی قائدین کے ذریعہ کانگریس امیدوار سدرشن ریڈی کے حق میں مہم چلائی اور مسلمانوں کے ووٹ بی آر ایس کے بجائے کانگریس کی طرف منتقل کرتے ہوئے عامر شکیل سے بدلہ لے لیا۔ ریاست بھر میں مقامی جماعت نے بی آر ایس کی تائید کی تھی لیکن بودھن میں عامر شکیل کی مخالفت کی گئی۔ نظام آباد ( اربن ) سے محمد علی شبیر کو شکست دینے کیلئے مجلسی قیادت نے اپنے مقامی کارپوریٹرس کو متحرک کردیا جن کی تعداد تقریباً 16 بتائی جاتی ہے۔ ضلع کی مقامی قیادت اور کارپوریٹرس کو مسلسل فون کرتے ہوئے صدر مجلس نے بی آر ایس کے حق میں مسلمانوں کو ہموار کرنے کی ہدایات دیتے رہے۔ بتایا جاتا ہے کہ رائے دہی کے دن بھی صدر مجلس نے کارپوریٹرس کو شخصی طور پر فون کرتے ہوئے مسلم ووٹ کانگریس کے بجائے بی آر ایس کے حق میں منتقل کرنے کی ہدایت دیتے رہے۔ مجلس نے اگرچہ اس حلقہ سے مقابلہ نہیں کیا لیکن مسلمانوں کے ووٹ بی آر ایس اور کانگریس میں تقسیم کرتے ہوئے محمد علی شبیر کو شکست سے دوچار کردیا اور بی جے پی کا فائدہ ہوگیا۔ جوبلی ہلز اسمبلی حلقہ میں محمد اظہر الدین کو شکست دینے کیلئے مجلس نے کارپوریٹر محمد فراز کو امیدوار بنایا۔ مجلس کے امیدوار کے نتیجہ میں مسلم ووٹ تقسیم ہوگئے جس کے نتیجہ میں اظہر الدین کی کامیابی کی راہ مسدود ہوگئی۔ عام مسلمانوں کا احساس ہے کہ مقامی قیادت کو اسمبلی میں مسلم نمائندگی میں اضافہ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے کیونکہ اگر دیگر پارٹیوں میں مسلم ارکان اسمبلی منتخب ہوجائیں تو مجلس کی اہمیت ختم ہوجائے گی لہذا صرف اپنے وجود کو باقی رکھتے ہوئے دیگر مسلم امیدواروں کے خلاف مبینہ طور پر سازش کی گئی جو کامیاب ہوئی ہے۔ اسمبلی نتائج سے ایک بات واضح ہوچکی ہے کہ تلنگانہ کا سیاسی ماحول مذہب کی بنیاد پر منقسم ہوچکا ہے۔ کانگریس اور بی آر ایس کے مسلم امیدواروں کو اکثریتی طبقہ کی جانب سے خاطر خواہ ووٹ حاصل نہیں ہوئے جس کا واضح ثبوت بودھن، نظام آباد اربن اور جوبلی ہلز حلقہ جات ہیں۔ مسلمان رائے دہندے تو ہمیشہ سیکولر غیر مسلم امیدواروں کی تائید کرتے رہے ہیں لیکن اکثریتی طبقہ نے مسلم امیدواروں کی تائید سے گریز کیا ہے۔
