کورونا پر قابو پانے میں حکومتوں کی ناکامی کے بعد اندیشے ۔ ریاستوں پر کنٹرول کرنے مرکز کیلئے گنجائش
محمد مبشر الدین خرم
حیدرآباد۔15جون۔ کیا ملک میں معاشی ایمرجنسی نافذ کردی جائے گی!کورونا وائر س کی وباپر قابو پانے میں ناکامی کے سلسلہ میں الزامات اور جوابی الزامات کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے اور ریاستی حکومتیں مرکزپر اور مرکزی حکومت کی جانب سے ریاستی حکومتوں کی نااہلی پر برہمی کا اظہار کیا جانے لگا ہے جو ملک کے حالات کو مزید ابتر کرنے لگا ہے۔ ملک میں معاشی ایمرجنسی کے نفاذ کا مکمل اختیار صدر جمہوریہ ہند کو حاصل ہے اور وہ اپنے اختیارات کا استعمال کرکے دستور کی دفعہ 360کا استعمال کرسکتے ہیں جو ملک میں معاشی ایمرجنسی کے نفاذ سے متعلق ہے۔ ملک میں کورونا وباء کی روک تھام کیلئے مرکزی حکومت کے لاک ڈاؤن کے باوجود مریضوںکی تعداد میں اضافہ کو دیکھتے ہوئے سخت اقدامات پر غور کیا جانے لگا ہے اور کہا جار ہاہے کہ لاک ڈاؤن کے خاتمہ کے بعد ملک میں حالات کو معمول پر لانے کی کوششوں میں ناکامی کے پیش نظر مرکزی کابینہ کی سفارش پر صدر کی جانب سے معاشی ایمرجنسی کے نفاذ کو ممکن بنایاجاسکتا ہے۔ لاک ڈاؤن میں رعایت کے بعد عوام کی جانب سے سماجی فاصلہ برقرار نہ رکھنے اور ماسک نہ لگانے کے علاوہ صفائی کو یقینی نہ بنانے سے حالات ابتر ہوتے جار ہے ہیں اور مرکزی و ریاستی حکومتیں ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانے لگی ہیں۔ صدر جمہوریہ کو وبائی امراض کے متعلق قوانین کے علاوہ دستور ہند نے جو اختیارات فراہم کئے ہیں ان میں دفعہ 360کے استعمال کے ذریعہ فوری اثر کے ساتھ معاشی ایمرجنسی کے نفاذ کا اختیار ہے لیکن دستور نے معاشی ایمرجنسی کے سلسلہ میں فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیالنج کی گنجائش ہے ۔ معاشی ایمرجنسی کے بعد اندرون دوماہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی منظوری سے مدت کے تعین کو لازمی قراردیا گیا ۔ ملک میں معاشی ایمرجنسی کی صورت میں صدر جمہوریہ کو معیشت کے متعلق تمام امور کی نگرانی کا حق حاصل ہوجائے گا اور ریاستی ومرکزی حکومت کے علاوہ کسی ملازم کی تنخواہوں میں کٹوتی و دیگر امور پر صدر جمہوریہ اپنے طور پر فیصلہ کے مجاز ہونگے۔ ریاستی حکومتوں کو اخراجات کی منظوری صدر جمہوریہ سے لینی ہوگی اور مرکز کو بھی اخراجات کے سلسلہ میں صدرجمہوریہ سے اجازت حاصل کرنا لازمی ہوجائے گا۔ کورونا لاک ڈاؤن کے سبب صرف ہندستان نہیں بلکہ دنیا بھر میں معیشت تباہ ہوچکی ہے لیکن ہندستان میں معاشی بحران کی صورتحال سے باہر نکلنے کے آثارنظر نہیں آرہے ہیںاسی لئے حکومت سے سخت فیصلوں کے ذریعہ کورونا اور معیشت دونوں پر قابو پانے کی کوشش کی جا رہی ہے اورکہا جار ہاہے کہ ریاستی حکومتوںپر مرکز کے کنٹرول کو یقینی بنانے ممکنہ اقدامات کا جائزہ لینے کے بعد یہ نتیجہ اخذکیا گیا ہے۔ 1991میں ملک کو درپیش سنگین معاشی مسائل کے باوجود معاشی ایمرجنسی نافذ نہ کرنے کی بنیاد پر عہدیداروں کا ماننا ہے کہ اس قدر سنگین فیصلہ کرنا دشوار ہے لیکن عہدیداروں کی نظر میں موجودہ حکومت کا کرنسی تنسیخ کا اچانک فیصلہ بھی ہے اسی لئے کوئی اس بات کی توثیق یا تردید کے موقف میں نہیں ہیں۔ ملک میں صنعتی اداروں کی کشادگی اور تجارتی امورکو بحال کرنے کے بعد بھی معاشی سرگرمیاں بحال نہیں ہوپائی ہیں جو حکومت کیلئے جواز ہیں۔ سرکاری ذرائع کے مطابق لاک ڈاؤن میں توسیع نہ کرنے کا فیصلہ بھی ان امور کو نظر میں رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔
