کیا منی پور کے عوام ہندوستان پر دوبارہ بھروسہ کرسکتے ہیں

   

پیاٹرسیا مکھِم
آج کل ہندوستان میں منی پور تشدد ، وہاں ککی قبائیل سے تعلق رکھنے والی بے شمار خواتین کی اجتماعی عصمت ریزی کے واقعات اور قتل و غارت گیری کے بہت چرچے ہیں ۔ شمال مشرقی ریاستوں میں پیش آئے ان واقعات پر کئی ایک سوالات پیدا ہورہے ہیں اور فی الوقت نریندر مودی حکومت ان سوالات کے دائرہ میں ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہیکہ نہ صرف وزیراعظم مودی بلکہ سارے ہندوستان کو خواب غفلت سے بیدار ہونے کیلئے 78 دن کا عرصہ لگ گیا ۔ شمال مشرقی ریاست منی پور 3 مئی سے جل رہی ہے ککی اور میتئھی قبائلی گروپوں کے درمیان تصادم نے زبردست تباہی مچائی ہے ۔ ریاست میں منتئھی قبائل آبادی کا 53 فیصد ہیں اس کے برعکس ککی ۔ زور کمیونٹی اور دوسرے قبائیلی گروہ آبادی کا 40 فیصد حصہ ہیں جس میں ناگا قبائیل بھی شامل ہیں ۔ آپ کو بتادیں کہ اکثریتی میتئھی قبائیل سے تعلق رکھنے والے ہجوم نے ’’ ککی خواتین کی نہ صرف برہنہ پریڈ کروائی بلکہ ان کی اجتماعی عصمت ریزی بھی کی ان کے ساتھ انتہائی وحشیانہ سلوک کیا ۔ 18 جولائی کو ملک بھر میں وہ ویڈیو وائرل ہوگیا ۔ دنیا بھر میں بھی اُس ویڈیو کا نوٹ لیا گیا ۔ حکومت ہند کے ساتھ جو معاہدہ طئے پایا تھا اس میں اس بات پر اتفاق پایا گیا تھا کہ میتئھی راجہ کی منی پور میں حکمرانی کا سلسلہ جاری رہے گا لیکن دفاع امور خارجہ اور مواصلات حکومت ہند یا انڈین یونین کے اختیار میں رہیں گے حقیقت میں دیکھا جائے تو 1972 سے منی پور دوسری ریاستوں کی طرح ہندوستان کی مکمل ریاست میں تبدیل ہوگئی ۔ منی پور کے اصلی باشندوں میں میتئھی ، ککی اور ناگا شامل ہیں ۔ اگرچہ ککی منی پور کے حقیقی باشندے ہیں لیکن خود چیف منسٹر منی پور این بیرین سنگھ نے یہ تاثر پیدا کیا کہ میانمار کے چن ہلز پہاڑی علاقوں سے خاص طور پر فوجی بغاوت کے بعد ککیوں کا مسلسل بہاو جاری ہے اور وہ منی پور میں بڑی تعداد میں داخل ہورہے ہیں جس سے زمین اور دیگر وسائل پر دباؤ بڑھتا جارہا ہے ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ بیرین سنگھ میتئھی ہے اور انہیں ایک متعصب و جانبدار چیف منسٹر کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے ۔ اگر منی پور میں ککیوں کی آباد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے تو مردم شماری کے ذریعہ حقیقت معلوم کی جاسکتی ہے لیکن وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت نے بی جے پی سے تعلق رکھتی ہے قومی مردم شماری کروانے سے گریز کیا 2011 میں آخری مرتبہ مردم شماری کی گئی تھی ۔ 2021 میں مردم شماری کی جانی چاہتے تھے اس طرح ککیوں کی بڑے پیمانے پر آمد سے متعلق الزامات ہنوز ثابت نہ ہوسکے اگر منی پور میں حالات کا جائزہ لیاجائے تو یہ ہندوستان میں نفاذ قانون کی ایجنسیوں کے رویہ کا ایک طرح سے آئنہ ہے ۔ ہندوستان بھر میں حکمران جماعت کس طرح پولیس کو مختلف ریاستوں میں استعمال کررہی ہے منی پور تشدد سے اس کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے حالانکہ حکومت کا یہ فریضہ ہے کہ وہ عوام کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنائے ۔ انڈین پولیس ایکٹ 1861 کی یہ میراث ہے یہ ایسا قانون ہے جس کا مقصد انگریزوں کو ہندوستانیوں کو دبانے ان پر ظلم و جبر کرنا تھا اور یہ قانون اب بھی نافذ ہے ۔ اگر منی پور میں پولیس وادی امپھال میں ککی زو لوگوں کی جان و مال کی حفاظت میں ناکام رہی ہے تو اس کی وجہ یہ ہیکہ وہ اس وقت کی حکومت سے اپنے احکامات لیتی ہے اور دستور کے مطابق کام نہیں کررہی ہے حالانکہ دستور یہی کہتا ہے کہ اس کی نظر میں تمام شہری برابر اور یکساں ہیں ۔ اس کے باوجود منی پور شمال مشرق کی دوسری ریاستوں سے مختلف ہے کئی دہائیوں سے ایسا محسوس کیا جارہا ہے کہ ہندوستان کا شمال مشرقی خطہ بڑی حد تک تبتی ، برمی اور آسٹروپشتک گروپوں کی آبادی پر مشتمل ہے جس میں ان کی علحدہ علحدہ ثقافتیں ، کھانے پینے کی عادات ، زبانیں اور چہرے کی خصوصیات پائی جاتی ہیں اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آر پائی اور دراوڑی نسل کی بڑی ہندوستانی آبادی کیلئے یہ سمجھنا مشکل ہے ۔