کیا مودی اس بار طاقتور وزیراعظم بنیں گے ؟

   

غضنفر علی خان
اس میں کوئی شک نہیں کہ 2019 ء کے حالیہ انتخابات میں بی جے پی نے شاندار کام یابی حاصل کی ، لیکن سچ تو بات یہ ہے کہ اس کامیابی میں پارٹی کا کم دخل رہا اور وزیراعظم مودی کی شخصیت حاوی رہی یہ کہنا غلط ہے کہ ہندوستانی عوام نے بی جے پی کے پروگرام اور پالیسی ، اس کی فلاسفی کو تسلیم کرلیا ہے۔ سارے انتخابات میں صرف نریندر مودی کی شخصیت مرکزی اہمیت کی حامل رہی ۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ملک کی اپوزیشن جماعتوں میں کوئی ان کا ہم قد یا ان جیسا سیاسی نظر رکھنے والا کوئی قائد نہیں تھا ۔ بی جے پی کی ساری مہم مودی نے چلائی سینکڑوں ریالیاں لاتعداد جلسہ عام اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کی چرب زبانی نے بازی الٹ کر رکھ دی اور ایک بے حد معقول وجہ یہ بھی رہی کہ الیکٹرانک میڈیا پر مودی نے کم و بیش قبضہ کرلیا تھا ، کئی چیانلس ان ہی کے گیت گایا کرتے ، ایسا معلوم ہورہا تھا کہ ملک میں صرف مودی انتخاب لڑ رہے ہیں، بی جے پی کی دولت بغیر کسی حساب کے لٹائی گئی ، اس معاملہ میں بھی اپوزیشن جماعتیں اور کانگریس میلوں پیچھے رہ گئی ۔ عام ووٹرس کو یہ احساس ہونے لگا کہ صرف مودی اور ان کی پارٹی بی جے پی ہی ان کے لئے کارآمد ثابت ہوں گی ۔ یہ دوسری مرتبہ ہے کہ نریندر مودی ملک کے وزیراعظم بنے ۔ ان کی پہلی میعاد پانچ سال کی تھی جس میں اس حکومت نے بے شمار غلط فیصلے کئے اور عوام کو نئے نئے مسائل سے دوچار کردیا لیکن مودی جی اپنی ہر تقریر میں ووٹرس کو یہ یقین دلواتے رہے کہ سارے مسائل عارضی ہیں اور حکومت ان پر قابو پالے گی ، ان جھوٹی تسلیوں نے بھی کام کیا اور عوام نے ان کی ساری غلطیوں کو معاف کردیا۔ بار بار یہ کہا جارہا ہے کہ 2019 ء میں بی جے پی تین سو (300) سے زائد نشستیں جیت کر ایک ریکارڈ قائم کیا جبکہ یہ بات سراسر غلط ہے کیونکہ مسز اندرا گاندھی نے 351 نشستیں اور ان کے صاحبزادے راجیو گاندھی نے 415 نشستیں حاصل کرتے ہوئے ایک نیا ریکارڈ قائم کیا تھا ۔ ہندوستان کی جمہوری تاریخ میں بی جے پی کی اس کامیابی کا کوئی بہت بلند مقام نہیں ہوسکتا ۔ اپنے پہلے دور حکومت میں مودی نے جو غلطیاں کی ہیں ان میں یہ غلطی سرفہرست ہے کہ انہوں نے وزیراعظم ہونے کے باوجود مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے والے پاری کے لیڈرس کو کوئی لگام نہیں دی ، نہ کبھی برا بھلا کہا اور نہ ان میں کسی کو بھی معمولی سزا دی۔ وزیراعظم کی خاموشی دراصل دیدہ دانستہ غفلت تھی ، وہ جان بوجھ کر بھی دستور کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی کر نہ سکے اور یہی چیز بی جے پی کے سر پھرے چھوٹے لیڈروں کی حوصلہ افزائی کا سبب بن گئی ۔ آج بھی ان کی بنائی ہوئی 57 رکنی کابینہ میں ایسے لیڈر کابینی وزیر ہیں جو اپنی زہر افشانی ، مسلم دشمنی کے لئے بدنام ہیں ۔ جیسے گری راج ، امیت شاہ اور دوسروں کے نام لئے جاسکتے ہیں ۔ امیت شاہ کے بارے میں تو خود ان کا طبقہ یہ اعتراض کرتا ہے کہ وہ سیاست سے زیادہ مسلم دشمنی پر انحصار کرتے ہیں۔ آج وہی ملک کے وزیر داخلہ بنے بیٹھے ہیں۔ گری راج کو اس بات پر اعتراض ہوا کہ آر جی ڈی کے لیڈر مسٹر پاسوان نے رمضان المبارک میں افطار کی دعوت دی تھی ۔ اب ایسی کوتاہ ذہنیت رکھنے والوں سے بھلا ہندوستانی مسلمان کیا توقع کرسکتے ہیں۔ سابق میں بھی گری راج نے ایسے کئی دلشکن بیانات مسلمانوں کے خلاف دیئے تھے ۔ گاؤ رکھشا کے مسئلہ پر بھی کئی مسلمانوں کا قتل کیا گیا ۔ اگرچہ کہ یہ قتل ہجومی تشدد میں ہوئے لیکن لاء اینڈ آرڈر کے نقطہ نظر سے یہ بہرحال انسانی قتل تھا ۔ محمد اخلاق ، جنید اور پہلو خان اور دوسرے کئی واقعات مودی کے پہلے دور حکومت میں ہوئے اور ہر مرتبہ دکھاوے کی کارروائی کے بعد مجرموں کو چھوٹ مل گئی ۔ ان سابقہ واقعات کے علاوہ آج بھی اس نوعیت کے واقعات ہورہے ہیں۔ اپنے پسندیدہ لیڈروں کو جن میں یوگی ادتیہ ناتھ وزیر اعلیٰ اترپردیش خاص طور پر شامل ہیں۔ بے شمار ایسی فرقہ پرستانہ نظیر قائم کرتے چلے جارہے ہیں، اترپردیش میں آج لاء اینڈ آرڈر کی جو ابتر صورت حال ہے ، اس پر وہاں کے وزیر اعلیٰ اورنئے وزیر داخلہ امیت شاہ کچھ کرنے کے موقف میں نہیں ہے۔ ملک کی سب سے بڑی ریاست میں خواتین ، طالبات و لڑکیاں ، نابالغ بچے اپنی جان کھورہے ہیں اور قتل ہونے سے قبل ان کی عصمت ریزی اور بے رحمی سے ان کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کیا جانا بھی شامل ہے۔ اس قسم کا تازہ واقعہ اترپردیش کے شہر علیگڑھ میں ہوا ہے لیکن علیگڑھ پولیس نے اس واقعہ کے بارے میں کئی حقائق پر پردہ ڈال دیا ہے ۔ یہ سب چیف منسٹر یوگی ادتیہ ناتھ کے بارے میں مودی جی کوئی قدم نہیں اٹھاتے۔ وہ ہمیشہ کی طرح ایسے انسان دشمن اور مسلم کش واقعات پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں جو حکمران طرفداری سے کام کرتا ہے اور اپنے لوگوں کو قانون کی مد سے بچا لیتا ہے ، اس کو خود قدرت معقول سزا دیتی ہے ۔ کم و بیش یہی عناصر آج بھی مودی کے اطراف ہیں۔ آج بھی وزیراعظم ان کے ظلم و زیادتی پر ان کی ان نقصان دہ حرکتوں پر خاموش ہیں۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ وزیراعظم اپنے پسندیدہ بی جے پی لیڈروں سے ہمدردانہ سلوک رکھتے ہیں، ان کے جرائم کی پردہ پوشی کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہی روش ان کے دوسری حکومت کے دوران بھی رہے گی جس کی وجہ سے اپنے تمام بی جے پی لیڈرس جو مسلم دشمن کو اپنا اولین سیاسی مقصد سمجھتے ہیں، بدستور بے لگام ہی رہیں گے ، وہ اسی طرح سے ’شتر بے مہار‘ اور ’بے زنجیر‘ کی طرح اپنے کارناموں پر سینہ ٹھوکتے ہوئے پھریں گے کیونکہ پہلے دور حکومت میں مودی نے کسی غلط کام کرنے والے اپنے پارٹی لیڈرس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی تھی ، اسی طرح اگر دوسرے دور حکومت میںبھی وہ ایسا ہی کر رہے ہیں، صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ وزیراعظم پہلے دور حکومت میں بھی پارٹی کے ان انتہا پسند لیڈروں کے آگے بے بس تھے اور اب بھی وہ بے بس ہی رہیں گے ۔ پارٹی میں موجود لیڈروں میں کھٹیار ، پرگیہ سنگھ کب سنگھ نکالیں گے اور تباہی مچائیں گے کچھ کہا نہیں جاسکتا ۔ اگر ابتدائی مراحل میں وزیراعظم ایسے تمام عناصر کے خلاف حا کمانہ انداز اختیار کریں اور انہیں چھوٹ دینے کا سلسلہ بند کریں تو شاہد کوئی بہتر صورت پیدا ہوسکتی ہے ۔ عوام نے تو مودی کو خوب ووٹ دیا ، ان کی اس کامیابی کو نبھانے کیلئے جو وسیع القلبی چاہئے ، وہ نہ تو پارٹی کے کیڈر میں ہے اور نہ لیڈر میں پایا جاتا ہے ۔ اس لحاظ سے مودی کا دوسرا دور بھی ان ہی شبہات و شکوک کا شکار ہوسکتا ہے جو ان کے دور اول میں حقیقت بن کر ابھرے تھے ۔ دوسرا دور حکومت ان کمزوریوں کا شکار نہ ہو اس کیلئے خود وزیراعظم کو ایک اصول پسند لیڈر بننا چاہئے ۔