سید امتیاز الدین
سال 2020ء کے آغاز پر جن لوگوں نے ایک دوسرے کو نئے سال کی مبارکباد دی ہوگی ان کو شائد پتہ بھی نہ تھا کہ یہ سال اُن کیلئے بلکہ ساری دنیا کیلئے ہلاکت خیز ثابت ہوگا ۔ ایسا سال نہ ہم نے کبھی دیکھا نہ ہمارے باپ دادا نے۔ 2020 کے شروع میں ہم اخبارات میں پڑھ رہے تھے کہ یہ مرض چین کے شہر ووہان میں دھوم مچا رہا ہے لیکن ہم نے یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ یہ دھوم ساری دنیا میں مچنے والی ہے ۔ ایک زمانہ تھا کہ دنیا میں سفر کے وسائل کم تھے اور بعض جاں باز سیاح دنیا کے سفر پر تھے تو اپنے وطن کو ہمیشہ کیلئے خیرباد کہہ کر اپنی ماؤں سے دودھ بخشوا کر اور اپنی بیویوں کو عقد ثانی کا مشورہ دے کر نکلتے تھے اور پیدل چلتے ہوئے برسوں میں ایک ملک سے دوسرے ملک کو پہنچتے تھے ۔ تقریباً ہر ملک میں سیر و سیاحت کے علاوہ شادیاں رچاتے اور اپنے سفر ناموں کے ساتھ اپنی اولاد کا تحفہ دے کر دوسرے ملک کی سیر کو نکل جاتے تھے ۔ چونکہ دنیا گول ہے اس لئے کبھی غلطی سے اپنے وطن واپس ہوجاتے تو اپنے ہم وطنوں سے اپنا از سرنو تعارف کرواتے ۔ اب یہ حال ہے کہ آپ آج ہندوستان سے نکلیں تو بمشکل دوسرے ہی دن امریکہ پہنچ سکتے ہیں ۔ میںنے پڑھا ہے کہ غالب اپنے کسی مقدمے کے سلسلہ میں کلکتہ گئے تھے تو مقدمہ ہارنے کے بعد ناکام و نامراد کلکتہ سے اگست کے مہینہ میں چلے تو نومبر کے مہینے میں دہلی واپس ہوئے ۔ بھلا ہوا اس ہوائی سفر کا کہ اب مہینوں بلکہ برسوں کا سفر چند گھنٹوں میں طئے ہوجاتا ہے ۔ پہلے جو بیماریاں یا وبائیں کسی ملک کے چھوٹے سے علاقے میں پھیلتی تھیں اب ہوائی جہاز کے مسافرین کے ذریعہ دنیا بھر کے محتلف ملکوں میں پھیل جاتی ہیں ۔ چنانچہ کورونا کے ساتھ بھی یہی ہوا ۔
خیر، اب کہنے کی بات یہ ہے کہ ہم اگرچہ گھر سے باہر نکل نہیں رہے تھے اور ممکنہ احتیاط برت رہے تھے لیکن ہم کو بھی کورونا ہوا ۔ ہوا یوں کہ ایک دن ہم کو ہلکا بخار محسوس ہوا ، کچھ کھانسی آئی اور دو چار چھینکیں ۔ ہم نے اپنے بیٹے سے کہا ’’ میاں ذرا ہمارا ٹمپریچر دیکھو ‘‘ ہمارا بیٹا اپنے پاس سے تھرما میٹر لایا ۔ یہ تھرما میٹر ایک عجیب نوعیت کا تھا ۔ اسے منہ کی بجائے بغل میں رکھا گیا ۔ ہمیں بتایا گیا کہ کچھ دیر بعد اس میں سے ایک آؤاز نکلتی ہے چونکہ ہماری سماعت بھی جواب دے رہی ہے اس لئے تھوڑی دیر کے بعد ہمارے پوتے نے جو پاس ہی بیٹھا تھا امیتابھ بچن کے لہجے میں کہا ’’ ہوٹر بچ گیا ‘ یعنی تھرما میٹر دیکھنے کا وقت آگیا۔ چنانچہ وہ تھرما میٹر نکالا گیا جس سے معلوم ہوا کہ بخار 99 درجے ہے اور فکر کی کوئی بات نہیں ۔ ہماری تشفی نہیں ہوئی تو ہم نے اپنی الماری سے اگلے وقتوں کا ایک تھرمامیٹر نکالا جس میں پارہ ہوتا ہے اور اسے منہ میں رکھتے ہیں ۔ اُس سے پتہ چلا کہ حرارت 101 کے قریب ہے ۔ ہم فوراً ایک ہاسپٹل گئے کیونکہ ہمارے مقامی ڈاکٹر صاحب کورونا کی آمد کے بعد سے روپوش ہیں اور ٹیلی فون پر روحانی مشورے دے رہے ہیں اور اُن کی فیس محلے کی ایک دواؤں کی دکان کے مالک کو دینی پڑتی ہے اور وہی ان کی تجویز کردہ دوائیں قیمت کی ادائی پر دیتا ہے ۔ ہم کو یہ طریقہ علاج پسند نہ آیا ۔ بہرحال ہم ماسک لگاکر دواخانے پہنچے ۔ دواخانے میں ہمارا بڑا پرتپاک استقبال ہوا ۔ ہم سے دور رہنے کو کہا گیا ۔ ہمارا ٹمپریچر ، بلڈ پریشر ، نبض کی رفتار دیکھی گئی ۔ ڈاکٹر سمجھدار تھا اُس نے کچھ عمومی قسم کی دوائیں لکھیں لیکن کچھ طبی امتحانات تجویز کئے اور رپورٹوں کے ساتھ اگلے دن پھر آنے کو کہا ۔ دوسرے دن معلوم ہوا کہ ہم کورونا پازیٹیو ہیں اور چاہیں تو دواخانے کی اوپری منزل میں شریک ہوسکتے ہیں جہاں پہلے سے ہی ہمارے جیسے اسیران قفس موجود ہیں ۔ ہم نے خانہ نشیں بلکہ گوشہ نشین ہوجانے کو ترجیح دی ۔ ایک فرشتہ صفت نوجوان جو کسی لیباریٹری میں خون کے معائنوں پر مامور ہیں ، ہمارے ہر روز معائنہ کرتے رہے ۔ بالآخر دو ہفتو ں کے بعد تشخیص ہوئی کہ اب ہم صحت یاب ہوچکے ہیں اور باہر کی دنیا میں سانس لے سکتے ہیں اور ہماری سانسوں سے دوسروں کی سانسوں کو کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ ہم آپ کو یہ بتانا تو بھول ہی گئے کہ ہم جس کمرے میں قید تھے وہاں ٹی وی بھی تھا اور ایک اٹائچ باتھ روم بھی ، البتہ ہمارا دانہ پانی ، پھلوں کا رس کھڑکی کے راستے سے دیا جاتا تھا ۔ دوستوں اور عزیزوں سے موبائیل فون پر بات ہوتی تھی ۔ بعض دوست اتنے محتاط تھے کہ مختصر ترین گفتگو کرتے تھے کہ کہیں ہماری آواز ٹیلی فون کی لہروں کے ذریعہ سے کورونا نہ پھیلا دے ۔ ہم جب صحت یاب ہوگئے تو ہمارے احباب نے مبارکباد دی کہ اب ہم اندرونی مدافعت کے قابل ہوگئے ہیں ۔
قصہ مختصر اب ہم آزادانہ گھوم پھر رہے ہیں ( گھر کے اندر ) پھر بھی برادران وطن سے ہماری درخواست ہے کہ وہ ماسک لگائے رکھیں اور سماجی دوری برقرار رکھیں ۔ ماسک کے کئی فائدے ہیں ۔ پہلا تو یہ کہ آپ وباء سے بچے رہیں گے ۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ جان پہچان کے لوگ بھی آپ کو پہچان نہیں سکیں گے ۔ اگر آپ کسی کے مقروض ہیں تو قرض خواہ آپ سے قرض کی واپسی کا تقاضہ کئے بغیر بے نیازانہ گزر جائے گا ۔ ماسک لگانے کے بعد اکثر خواتین خوش شکل دکھائی دیتی ہیں ۔ سماجی دور سے انسان بری صحبت سے بچا رہتا ہے ۔
کہا جاتا ہے کہ کورونا سے ملک میں تجارت کو نقصان پہنچا ۔ ہمارا خیال ہے کہ بعض کاروبار جو اب تک ہماری نظروں سے اوجھل تھے کورونا کی وجہ سے منظر عام پر آئے ۔ قسم قسم کے ماسک ، بازار میں من مانی قیمتوں پر فروخت ہوئے ۔ سنیٹائزر کبھی گھروں میں آتا نہیں تھا اب ہر گھر میں موجود ہے ۔ صابن بنانے والی کمپنیوں کی چاندی ہوگئی ۔ ’’ ہمارا صابن آپ کو اس وباء سے محفوظ رکھے گا ۔ زندگی سے ہاتھ دھونے سے پہلے ہمارے صابن سے ہاتھ دھویئے وغیرہ ‘‘ ۔ جیسے اشتہار اخباروں اور ٹی وی پر آنے لگے ۔ دارچینی کی چائے مقبول ہوگئی ۔
اب جبکہ اس وباء کا زور کم ہوگیا ہے لوگوں کی لاپرواہی بڑھ گئی ہے ۔ ہم خود ایک عدد ماسک چار پانچ دنوں سے لگائے ہوئے ہیں ، بعض گھروں میں بیٹے کا ماسک باپ اور باپ کا ماسک بیٹا استعمال کررہا ہے ، بعض لوگ میلی کچیلی دستی باندھ کر کام چلارہے ہیں ۔ پھر بھی بعض دلچسپیاں ماند پڑگئی ہیں ۔ مشاعرے اور ادبی محفلیں بے مزہ ہوگئی ہیں ۔ مشاعرے آن لائن ہونے لگے ہیں ۔ شاعر کو داد کے بغیر کلام سنانے میں مزہ نہیں آتا ۔ سامعین ہوٹنگ کے بغیر مشاعرے سے لطف اندوز نہیں ہوسکتے ۔
اب 2021 شروع ہوا ہے لیکن بہت کم لوگوں نے ایک د وسرے کو مبارکباد دی ہے ۔ بہت سے لوگ سال کے گزرنے کا انتظار کررہے ہیں ۔ اگر بخیر و خوبی گزر گیا تو شاید مبارکباد دیں کہ بھائی مبارک ہو ، یہ سال اچھا کٹا اور کیا عجب آئندہ سے لوگ نئے سال کی آمد پر نہیں بلکہ اس کے جانے پر مبارکباد دیں اور خوشیاں منائیں ۔