کیا ہم اسلاموفوبیا پر روک لگاسکتے ہیں

   

رام پنیانی
امریکہ کے ٹوئین ٹاور پر 11 ستمبر 2001 کو دہشت گردانہ حملہ ہوا تھا اس حملہ کے بعد لفظ ’’اسلاموفوبیا‘‘ کا بہت زیادہ استعمال ہونے لگا باالفاظ دیگر ساری دنیا میں یہ لفظ بہت عام ہوا۔ اس دہشت گردانہ حملہ کے بعد امریکی میڈیا نے ایک اور اصطلاح ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کو بھی عام کردیا۔ اور دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک مذہب کو دہشت گردی کی سیاسی کارروائی سے جوڑ دیا گیا۔ہندوستان میں اقلیتوں کے خلاف نفرت پہلے ہی سے مروجہ ہے یعنی موجود ہے لیکن مختلف دلائل کے ساتھ یہ دراصل فرقہ وارانہ سیاست کا بائی پراڈکٹ ہے جو جدوجہد آزادی کے دوران ہندوستانی قوم پرستی کے ردعمل کے طور پر منظر عام پر آئی تھی۔
ہندو فرقہ وارانہ سیاست نے یہی پروپگنڈہ کیا اور جھوٹ پھیلایا کہ اسلام تشدد کی تعلیم دیتا ہے۔ تشدد سے اس مذہب کا تعلق ہے۔ ان فرقہ پرست طاقتوں نے یہ بھی جھوٹ پھیلایا کہ اسلام زور زبردستی کے ذریعہ پھیلا ہے یہ دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث مذہب ہے۔ مسلم بادشاہوں نے ہندووں کی مندروں کو تباہ کیا۔ مسلمان ایک سے زائد شادیاں کرتے ہیں، زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں انتہائی جارحانہ ہوتے ہیں۔ گائے کا گوشت کھاتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اور یہ تمام پہلے ہی سے یہاں سماجی فکر کا حصہ ہے۔

گزشتہ چند برسوں سے ہندوستان میں جو واقعات پیش آئے ہیں خاص طور پر کشمیر کو خصوصی موقف عطا کرنے والی دستور کی دفعہ 370 منسوخ کی گئی۔ شہریت ترمیمی قانون لایا گیا اور اس کے خلاف شاہین باغ میں شاندار جمہوری احتجاج کیا گیا۔ ان تمام واقعات یا تبدیلیوں نے ایک ایسی صورتحال پیدا کردی جہاں نفرت پھیلانے والے میکانزمس مزید جارحانہ ہوگئے اور ان تمام پر روک لگانے یا ان کی پیشرفت روکنے کے لئے اچانک COVID-19 آگیا۔ تبلیغی جماعت واقعہ جہاں کورونا کے پھیلاو کا سارا الزام غلط طور پر مسلمانوں پر عائد کردیا گیا۔صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ یہ بھی الزام عائد کیا گیا کہ مسلمان نے اب کورونا جہاد کے لئے باہر آئے ہیں وہ کورونا بم بنا رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ مسلمانوں کے بارے میں پھیلائی گئی غلط و بے بنیاد باتیں عام سوچ کا ایک حصہ بن گئی اور جس سے مسلم کمیونٹی کی زندگی ناقابل برداشت ہوگئی۔ یہاں تک کہ جب مہاراشٹرا کے پال گھر کے قریب مقامی دیہاتیوں کے ہاتھوں دو سادھووں اور ان کے ڈرائیور کو ہجومی تشدد میں قتل کیا گیا ابتداء میں اُسے مسلمانوں کی کارروائی قرار دیا گیا۔
عام طور پر عالمی برادری کبھی کبھار اس طرح کے واقعات اور حقوق انسانی کی پامالی پر احتجاج درج کراتی ہے اور حقوق انسانی کی سنگین خلاف ورزی کے واقعات اور اقلیتوں کے انسانی حقوق کی پامالی کے لئے تنقید بھی کرتی ہے۔اس مرتبہ مسلمانوں کو جس انداز میں الگ تھلگ کرنے کی کوشش کی گئی اس کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے کئی عالمی پلیٹ فارمس اور شخصیتوں نے ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت زار ان کے ساتھ اختیار کئے جانے والے رویہ اور روا رکھے جارہے سلوک پر برہمی ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ عالمی برادری کا یہ احساس ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کی حالت ناقابل برداشت اور مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی ہے۔ آرگنائزیشن آف اسلامک کو آپریشن جیسی تنظیم کے آزادانہ مستقل حقوق انسانی کمیشن نے ہندوستان میں مسلمانوں کے تحفظ کے لئے اقدامات پر زور دیا۔
اس دوران بی جے پی کے ایک ابھرتے ہوئے ستارہ تیجسوی سوریہ کے سابقہ ٹوئٹس میں سے ایک ٹوئٹ دوبارہ منظر عام پر آیا۔ اس ٹوئٹ میں تیجسوی نے طارق فتح کے ایک ٹوئٹ کو ری ٹوئٹ کرتے ہوئے اس کی تائید کی کی تھی دراصل طارق فتح کا وہ ٹوئٹ عرب خواتین کی توہین تھا۔ اس سے قبل کے بعض ہندوستانیوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ہندوستانی ہی ہیں جنہوں نے خلیجی ممالک کی ترقی و خوشحالی میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اس طرح کے ٹوئٹس سے سارا ماحول پراگندہ ہوگیا ساتھ ہی مسلمانوں کے بارے میں منفی خیالات ظاہر کئے جانے لگے ان پر مختلف قسم کے لیبل چسپاں کئے جانے لگے۔شاہی خاندان کے کسی فرد کی اس طرح کی مداخلت سے مذہبی منافرت پھیلانے والوں کے خلاف محاذ کھل گیا۔

ہند القاسمی نے اپنے بیان میں ایک اہم نکتہ یہ بیان کیا کہ یہ کامیاب نام نہاد بااثر دولت مند یہ نہیں جانتے کہ نفرت انگیز پیامات قتل عام کا پیش خیمہ ہوتے ہیں؟ نازی ازم صرف ایک دن میں پیدا نہیں ہوا بلکہ اسے ایک گھاس کی طرح اگایا گیا اور پھر وہ گھانس ایک جنگلی درخت میں تبدیل ہوگئی کیونکہ لوگوں نے نفرت کا مقابلہ کرنے کی بجائے دوسری چیز کا انتخاب کیا۔ ان کی اس کمزوری کو خاموشی قرار دیا گیا اور ساری دنیا نے دیکھا کہ اس خاموشی یا بزدلی کا انجام کیا ہوا۔ قتل عام !! ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف برسر عام نفرت پھیلائی جارہی ہے یہ وہ ملک ہے جہاں مسلمانوں کی آبادی 182 ملین ہے۔
نریندر مودی جو عام پر اس طرح کے واقعات پر بہت تاخیر سے ردعمل ظاہر کرنے کے عادی ہیں بالآخر خواب غفلت سے بیدار ہوئے۔ ہر کوئی اچھی طرح جانتا ہے کہ نہ صرف کثیر تعداد میں ہندوستانی خلیجی ممالک میں ملازم ہیں بلکہ وہ اپنے ملک کو اربوں ڈالرس بھیج رہے ہیں۔ان خلیجی ممالک سے تجارتی تعلقات رکھنے والا ہندوستان تیسرا بڑا ملک ہے۔ مودی کے ٹوئٹ کو مثبت انداز میں لیا جارہا ہے اور اکثر تبصرہ نگار اس کی ستائش کررہے ہیں جنہیں مودی کے اس ٹوئٹ میں امید کی ایک کرن نظر آرہی ہے۔

مودی نے اپنے ٹوئٹ میں کہا تھا ’’کووڈ ۔ 19 حملہ کرنے سے قبل نسل، مذہب، رنگ، ذات پات، عقیدہ زبان یا سرحد نہیں دیکھتا۔ ایسے میں ہمیں سب سے پہلے اتحاد و اخوت کو اولین اہمیت و ترجیح دینی چاہئے۔ اس لڑائی میں ہم متحد ہیں۔ مودی جانتے ہیں کہ میڈیا سوشل میڈیا اور تلخ و ترش الفاظ کے ذریعہ زبانی چیانلس چلانے والے کون ہیں اور کون نفرت پھیلا رہے ہیں اس کے باوجود انہوں نے اپنے ٹوئٹ میں ان کی کسی بھی طرح سرزمنش نہیں کی۔
اسی خطوط پر آر ایس ایس کے سرسنچالک موہن بھاگوت نے بھی یہی کہا کہ چند لوگوں کی حرکتوں کے لئے ساری کمیونٹی کو نشانہ نہیں بنایا جانا چاہئے۔ ہندو قوم پرستانہ سیاست کی ان دونوں اہم شخصیتیں خوش قسمتی سے خواب غفلت سے بیدار ہوئیں اور اگر عالمی سطح پر ہندوستان کی سرزنش نہیں کی جاتی تو یہ خواب غفلت میں ہی پڑے رہتے۔ خاص طور پر متحدہ عرب امارات اور خلیجی ممالک سے جس طرح کا ردعمل سامنے آیا اس سے مودی اور بھاگوت منہ کھولنے پر مجبور ہوئے۔ ویسے بھی متحدہ عرب امارات اور خلیجی ممالک میں نفرت پھیلانے والے ہندوستانیوں کو ملازمتوں سے برخواست کیا جانا شروع ہوچکا ہے۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ مودی کابینہ میں شامل مختار عباس نقوی نے ہندوستان کو مسلمانوں کے لئے جنت قرار دیا۔