کیا ہندوستان میں صحافت کی آزادی بالکل ختم ہوجائے گی

   

روش کمار
مندیپ پونیا کی گرفتاری سے مجھے بہت رنج پہنچا اور میرے جذبات مجروح ہوئے۔ ہاتھرس کیس میں صدیق کپن کا کچھ پتہ نہیں چل رہا ہے۔ کانپور کے امیت سنگھ کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ راج دیپ سردیسائی اور سدھارتھ ورداراجن پر بھی مقدمات درج کئے گئے ہیں۔ کیا ہندوستان میں صحافت کی آزادی بالکل ختم ہوجائے گی؟ یہ میں نے ٹوئیٹر پر ٹویٹ کیا ہے۔ اگست 2015ء کے بعد پہلی بار ٹویٹ کیا ہے۔ وہی مکتوب پیش کررہا ہوں۔جیل کی دیواریں آزاد آوازوں سے اونچی نہیں ہوسکتی ہیں جو اظہار خیال کی آزادی پر پہرہ لگانا چاہتے ہیں وہ دیش کو جیل میں بدلنا چاہتے ہیں۔
عزیز جیلر صاحب ہندوستان کی تاریخ ان سیاہ دنوں کی امانت آپ کو سونپ رہی ہے۔ آزاد آوازوں اور سوال کرنے والے صحافیوں کو رات کی تاریکی میں ان کی (سرکار کی) پولیس اٹھا لے جاتی ہے۔ دور دراز کے علاقوں میں ایف آئی آر درج کردیتی ہے۔ ان آوازوں کو سنبھال کر رکھیئے گا اپنے بچوں کو واٹس ایپ چاٹ میں بتایئے گا کہ سوال کرنے والا ان کی جیل میں رکھا گیا ہے۔ برا لگ رہا ہے لیکن میری نوکری ہے۔ جیل بھجوانے والا کون ہے اس کا نام آپ کے بچے خود گوگل کے ذریعہ سرچ کرلیں گے جو آپ کے بڑے عہدیدار ہیں۔ آئی اے ایس اور آئی پی ایس اپنے بچوں سے نظریں چراتے ہوئے انہیں صحافی نہ بننے کے لیے کہیں گے۔ سمجھائیں گے کہ میں نہیں تو فلاں انکل تمہیں جیل میں بند کردیں گے۔ ایسا کرو کہ تم غلام بنو اور جیل سے باہر رہو۔ بھارت ماتا دیکھ رہی ہے کہ گودی میڈیا کے سرپر تاج رکھا جارہا ہے اور آزاد آوازیں جیل بھیجی جارہی ہیں۔ ڈیجیٹل میڈیا پر آزاد صحافیوں نے بہت اچھا کام کیا۔ کسانوں نے دیکھا ہے کہ یوٹیوب چیانل اور فیس بک لائیو سے کسان تحریک کی خبریں گائوں گائوں پہنچی ہیں انہیں بند کرنے کے لیے معمولی غلطیوں اور الگ دعوئوں پر ایف آئی آر درج کی جارہی ہیں۔ آزاد آواز کی اس جگہ پر سب سے بڑے جیلر کی نظریں ہیں۔ جیلر صاحب آپ حقیقی جیلر بھی نہیں ہیں۔ جیلر تو کوئی اور ہے اگر یہی اچھا ہے تو ان بجٹوں میں وزیراعظم جیل بندی اسکیم شروع ہو۔ مزیگا سے گائوں گائوں جیل بسے اور بولنے والوں و آواز اٹھانے والوں کو جیل میں ڈھکیل دیا جائے۔ جیل بنانے والے کو بھی جیل میں ڈالا جائے۔ ان جیلوں کی طرف دیکھنے والا بھی جیل میں بند کردیا جائے یہ بھی اعلان کردیا جائے کہ وزیراعظم جیل بندی اسکیم کا آغاز ہوچکا ہے۔ برائے مہربانی خاموش رہیں۔
سوال کرنے والے صحافی جیل میں رکھے جائیں گے تو دو باتیں ہوں گی،جیل سے اخبار نکلے گا اور باہر کے اخبارات میں خوشامد پسند لکھا کریں گے۔ عالمی لیڈر ہندوستان کے لیے یہ اچھی بات نہیں ہوگی۔ میری درخواست ہے کہ سدھارتھ وردا راجن، راج دیپ سردیسائی، امیت سانگھ کے بشمول تمام صحافیوں کے خلاف درج مقدمات واپس لیئے جائیں۔ایف آئی آر کا کھیل بند ہو۔ میری ایک بات نوٹ کرکے پرس میں حفاظت سے رکھ لیجئے جس دن عوام یہ کھیل سمجھ لے گی اس دن ملک کے گائوں گائوں میں ٹریکٹروں بسوں اور ٹرکوں کے پیچھے ہوائی جہازوں، بلٹ ٹرین منڈیوں میلوں بازاروں اور بیت الخلاء کی دیواروں پر یہ بات لکھ دی جائے گی کہ غلام میڈیا کے رہتے ہوئے کوئی ملک آزاد نہیں ہوسکتا۔ گودی میڈیا سے آزاد ہوکر نئی آزادی کا سورج طلوع ہوگا۔