’وقف بائی یوزر ‘کی شق کو ختم کرنے سے مسائل ہوں گے، سپریم کورٹ کا مرکزی حکومت کو انتباہ
نئے وقف قانون پر عدالت عظمیٰ میں آج دوبارہ سماعت
نئی دہلی: وقف (مرممہ) قانون 2025ء پر عبوری حکم نامہ جاری کرنے سپریم کورٹ نے اپنا ارادہ آج کی کارروائی کے آخری لمحات میں ٹال دیا کیونکہ مرکزی حکومت اور بعض ریاستوں نے ان تین نکات کے بارے میں اپنے دلائل کو پیش کرنے کیلئے مزید وقت کی درخواست کی ہے، جو عدالت نے اٹھائے ہیں۔ جسٹس سنجیو کھنہ زیرقیادت تین رکنی بنچ اس معاملہ کی کل جمعرات کو دوبارہ سماعت کرے گی۔ بنچ کے دیگر دو ارکان جسٹس سنجے کمار اور جسٹس کے وی وشواناتھن ہے۔ سپریم کورٹ نے نئے وقف قانون (Act Amendment Waqf ) کو چیلنج کرنے والی متعدد درخواستوں پر سماعت کے دوران مرکزی حکومت سے سخت سوالات کیے۔ عدالت نے خاص طور پر ان دفعات پر توجہ دی جو ’وقف بائی یوزر‘ (Waqf by User) املاک سے متعلق ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے حکومت سے پوچھا کہ اگر کسی زمین یا جائیداد کو برسوں سے مذہبی یا رفاہی مقصد کے تحت استعمال کیا جا رہا ہو، تو کیا اسے صرف اس بنیاد پر وقف کی حیثیت سے خارج کیا جا سکتا ہے کہ اس کی قانونی ملکیت درج نہیں ہے؟ جج صاحبان نے خبردار کیا کہ اگر ‘وقف بائی یوزر’ کی بنیاد پر تسلیم شدہ املاک کو ہٹا دیا گیا تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ عدالت نے ایک اور اہم مسئلے کی نشاندہی کی جو وقف کونسل میں غیر مسلم افراد کی شمولیت سے متعلق ہے ۔ عدالت نے مرکز سے سوال کیا کہ اگر غیر مسلموں کو سنٹرل وقف کونسل کا حصہ بنایا جا سکتا ہے، تو کیا مسلمان بھی ہندو مذہبی ٹرسٹوں یا انڈومنٹ بورڈز کا حصہ بننے کی اجازت حاصل کریں گے؟ سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ مذہبی اداروں کے انتظام میں مذہبی شناخت کا احترام ضروری ہے، اور کسی بھی ترمیم یا پالیسی کو بناتے وقت سماجی ہم آہنگی کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔73 درخواستوں کی سماعت کر رہی ہے جن میں نئے وقف قانون کو چیلنج کیا گیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ اگر ’وقف بہ تصرف‘ والی جائیدادوں کو ختم کیا گیا تو مسئلے پیدا کرے گا۔ چیف جسٹس سنجیو کھنہ نے کہا کہ اگرچہ کہیں کہیں اس نظام کا غلط استعمال ہوا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ تمام وقف جائیدادیں جعلی ہیں۔عدالت نے یہ بھی نشاندہی کی کہ چودھویں سے سولہویں صدی کے درمیان تعمیر شدہ کئی مساجد کے پاس سیل ڈیڈز نہیں ہوں گے، اس لیے انہیں رجسٹر کرنا مشکل ہے۔ اسی لیے ایسی جائیدادوں کو ختم کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔سماعت کے دوران عدالت نے مغربی بنگال کے کچھ علاقوں میں اس قانون پر جاری تشدد پر بھی تشویش ظاہر کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ معاملہ عدالت میں ہے اور وہی اس پر فیصلہ کرے گی۔عدالت کل بھی اس معاملے پر سماعت جاری رکھے گی۔
اردو زبان، مشترکہ ثقافت کی خوبصورت مثال: سپریم کورٹ
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے اردو کو گنگا جمنی تہذیب کی بہترین مثال قرار دیا اور زبانوں کے خلاف تعصب پر تنقید کرتے ہوئے اس طرح کے تعصب کو ہندوستان کی ثقافتی طاقت کے لیے خطرہ قرار دیا۔ عدالت عظمیٰ نے مہاراشٹرا کے اکولا ضلع میں پٹور میونسپل کونسل کے بورڈ پر مراٹھی کے ساتھ اردو زبان کے استعمال کو چیلنج کرنے والی ایک عرضی کو خارج کر دیا ہے۔ منگل کو عدالت نے سخت ریمارک کرتے ہوئے کہا کہ زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور اردو کو صرف مسلمانوں کی زبان سمجھنا ہندوستان کی حقیقت اور تنوع کے بارے میں بدقسمتی سے غلط فہمی ہے۔
مہاراشٹرا میں اردو سائن بورڈس برقرار رکھنے سپریم کورٹ کا فیصلہ
نئی دہلی: ہندوستان کی لسانی تکثیریت کو تقویت پہنچانے والے ایک اہم فیصلے میں سپریم کورٹ نے کل مہاراشٹرا میں میونسپل سائن بورڈز پر اردو کے استعمال کو برقرار رکھا اور اس درخواست کو خارج کر دیا جس میں مراٹھی اور انگریزی کے ساتھ اس کی شمولیت پر اعتراض کیا گیا تھا۔ جسٹس ابھے ایس اوکا اور جسٹس اجل بھویان پر مشتمل بنچ نے کہا کہ خطے میں اردو کا استعمال نہ تو غیر آئینی ہے اور نہ ہی امتیازی ہے ۔ ہندوستان کی طاقت اس کے بھرپور ثقافتی اور لسانی تنوع میں مضمر ہے ، جس کی جھلک سرکاری اداروں کے کام کاج میں ہونی چاہیے ۔ درخواست میں مہاراشٹرا کی ایک میونسپل کونسل کے سائن بورڈ پر اردو کے ڈسپلے کو چیلنج کیا گیا تھا، جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ریاست کی سرکاری زبان مراٹھی ہے اس لئے صرف مراٹھی زبان کی ہی اجازت ہونی چاہیے ۔ درخواست گزار نے دلیل دی تھی کہ اردو کا استعمال سیاسی طور پر محرک ہے اور اس سے مراٹھی کی اہمیت کو نقصان پہنچتا ہے۔ تاہم، عدالت نے اس دلیل کو دو ٹوک مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان ایک کثیر لسانی ملک ہے اور ہمارا آئین اس تنوع کو تسلیم کرتا ہے اور اس کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔