کیا ہندو ذہن بدل گیا ہے؟

   

عرفان جابری

کیا ہندو ذہن 2014ء کے بعد یکایک بدل گیا ہے؟ کیا انڈیا عنقریب’ہندو راشٹر‘ بن جائے گا؟ لوک سبھا انتخابات 2019ء میں بی جے پی کو 303 نشستوں کیساتھ دوبارہ اقتدار ملنے کے بعد گزشتہ تین ماہ کے دوران وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کی جوڑی نے جس طرح کی حکمرانی فراہم کی ہے، اسے دیکھتے ہوئے یہی لگتا ہے کہ مستقبل قریب میں ہمارے ملک کا موجودہ دستور کے بالکلیہ برعکس ’ہندو راشٹر‘ (موجودہ ’سکیولر‘ نہیں بلکہ ’ہندو ملک‘) بن جانا کچھ عجب نہیں۔ وہ اس لئے کہ جس شخص نے پانچ سال ملک کے مفاد میں بدترین حکمرانی کی، اُسی کی پارٹی کو 282 سے ترقی کیساتھ غیرمعمولی کامیابی کی واجبیت کو بہترین ’آئی کیو‘ یعنی عددِ ذہانت (Intelligence Quotient) کے حامل شخصیتیں تو کیا میری جیسی ناقص عقل والے کیلئے بھی قبول کرنا ممکن نہیں ہے۔
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ دنیا میں کچھ غیرمعمولی تو کیا معمولی تبدیلی بھی یونہی نہیں ہوجاتی۔ کوئی وجہ، کچھ کوشش، کوئی مقصد ضرور سبب ہوتے ہیں۔ پھر غیرمعمولی تبدیلی تو نہایت ٹھوس وجوہات کی متقاضی ہوتی ہے۔ یہ جاننا ہم تمام ہندوستانیوں بالخصوص ووٹروں کی ذمہ داری ہے۔ ہمیں غور کرنا چاہئے کہ ایسا کیونکر ہوا اور اس کے کیا کیا نتائج برآمد ہوسکتے ہیں؟
ڈسمبر 2018ء سے چار ماہ کے دوران ملک کے طول و عرض میں ایسا کیا ہوگیا کہ عوام نے تلنگانہ میں ملی جلی کارکردگی اور کمزور اپوزیشن کے سبب دوبارہ اقتدار حاصل کرنے والی پارٹی کے مابعد چناؤ ’منصوبے‘ دھرے رہ گئے اور غیرمتوقع طور پر بی جے پی و کانگریس کو قابل لحاظ کامیابی ملی، جس کے اثر سے ریاستی حکومت ابھی تک پوری طرح اُبھر نہیں پائی ہے۔ راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کے رائے دہندوں کا چار ماہ میں اس قدر دانشمند ہوجانا حیران کن ہے کہ انھوں نے اسمبلی انتخابات میں تینوں جگہ بی جے پی حکومتوں کو بے دخل کرتے ہوئے راہول گاندھی زیرقیادت کانگریس کو اقتدار پر واپس لانا مناسب سمجھا۔ تاہم، چار ماہ بعد جنرل الیکشن میں سوچا کہ راجستھان میں کانگریس کا کھاتہ نہیں کھلنا چاہئے، ایم پی میں 1 اور چھتیس گڑھ میں 2 … مجموعی طور پر 65 لوک سبھا نشستوں میں اپوزیشن کو 3 سے زیادہ نشستیں دینے پر ملک کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے!
بھارتی انتخابی تاریخ میں پہلی مرتبہ ’ناقص حکمرانی‘ کے باوجود ووٹروں سے حکومت کو ’شاباشی‘ ملنے کی میرے خیال میں صرف دو وجوہات ہوسکتی ہیں۔ پہلی، یہ کہ بھارت واقعی بدل گیا ہے، اکثریتی آبادی کا ذہن تبدیل ہوگیا ہے، اور آپ 2019ء جنرل الیکشن کو منفی کہیں یا مثبت مگر یہ ہمارے ملک کیلئے ’انقلابی موڑ‘ ثابت ہوا ہے۔ تاہم، جب پانچ سال تک ملک کے ہر دستوری ادارہ کی آزادانہ کارکردگی پر کئے گئے وار، 90% میڈیا (ذرائع ابلاغ) کے غیرواجبی، ناقابل قبول اور گھٹیا رویہ، الیکشن کے ختم پر ڈرامائی اگزٹ پولس اور پھر مزید حیران کن نتائج کے تناظر میں ملک کے طول و عرض میں بنیادی سیاسی و انتخابی صورتحال کا جائزہ لیں تو ’شاباشی‘ کی پہلی وجہ مسترد کرنا پڑے گا۔
مودی حکومت کو ’شاباشی‘ کی دوسری وجہ ’ای وی ایم‘ کے سوا کچھ اور نہیں ہوسکتی۔ این چندرا بابو نائیڈو، ممتا بنرجی اور بعض دیگر قائدین بار بار اس طرف توجہ دلاتے رہے لیکن اُن کی آوازیں نقار خانے میں طوطی کی صدا بن گئیں۔ تمام جمہوری اداروں کی کارکردگی تو پہلے ہی مشکوک ہوچکی تھی۔ ’ای وی ایم‘ کے خلاف شکایت کریں بھی تو کس سے رجوع ہوں؟ یہاں معاملہ کچھ ایسا ہوگیا ہے کہ جس پر الزام ہے، اُسی نے فیصلہ کرنا ہے تو اب کیا امید رہ جاتی ہے؟ مجھے ’ای وی ایم‘ کے معاملے میں حیرانی کانگریس کے رویہ پر ہوئی ہے۔ اصل اپوزیشن پارٹی نے کبھی اس طرح لب کشائی نہیں کی جیسے دیگر پارٹیاں مسلسل کرتے آرہے ہیں۔ کانگریس نے یو پی اے کی قیادت کرتے ہوئے دس سال اقتدار سنبھالا، جس میں اچھی پہلی میعاد کے بعد وہی ٹیم نے دوسری میعاد میں ’مشکوک انداز‘ میں ایسی فاش غلطیاں کیں کہ چیف منسٹر گجرات کا وزیراعظم ہند بننا سہل ہوگیا۔ اب مودی۔ امیت شاہ جوڑی کی سرگرمیوں سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انھیں کچھ معلنہ اور بعض غیرمعلنہ مقاصد پورے کرنے کی کافی جلدی ہے۔ تین طلاق قانون، جموں و کشمیر کیلئے مخصوص دستوری آرٹیکل 370 کی تنسیخ کے ساتھ ’طویل مدت میں ملک کی سالمیت‘ کو نقصان پہنچانے والے کاموں کی شروعات تو ہوچکی ہے۔ بہ الفاظ دیگر بی جے پی زیرقیادت این ڈی اے حکومت کی دوسری میعاد پر مجھے یو پی اے II کا گمان ہورہا ہے۔ بے شک! دونوں حکومتوں کے اقدامات کی نوعیت مختلف ہے مگر ’آ بیل مجھے مار‘ کا عنصر مشترک ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ امریکہ کی طرح انڈیا میں بھی اب اقتدار لگ بھگ ہمیشہ باری باری صرف دو پارٹیوں … ریپبلکنس و ڈیموکریٹس … یا دو مخلوط …یو پی اے و این ڈی اے… کے پاس رہے گا؟
ہندو تو کانگریس میں بھی اکثریت میں ہیں، اور بی جے پی تو لگ بھگ پوری طرح ہندوؤں کی پارٹی ہے … دونوں پارٹیوں میں فرق صرف اعتدال پسندی اور شدت پسندی کا ہے۔ دونوں میں بالواسطہ کچھ تال میل پیدا ہوجائے تو اَنہونی بات نہیں، لیکن ملک کی سب سے بڑی اقلیت میں تیزی سے اُبھرتے منافقوں نے موجودہ طور پر مرکزی حکومت کے پارلیمانی اکثریت کے بل بوتے پر جاری ’تخریبی‘ اقدامات کو آسان بنا دیا ہے۔ یہ عناصر کچھ اسی طرح ہیں جیسے اٹھارہویں صدی کے اواخر میں بھارت پر برطانوی سامراج کو مسلط کرنے میں حائل آخری بڑی طاقت ٹیپو سلطان کی شکست میں بعضوں نے بدنام زمانہ رول ادا کیا تھا۔ تاریخ نے اُن کو معاف کیا ہے، اور نہ اِن کو معاف کرے گی۔ آج ملک کو بی جے پی یا کسی اور پارٹی سے کہیں زیادہ خطرہ اقلیتی برادری کے منافقوں سے ہے، جن کے تعلق سے عوام میں بیداری پیدا ہوجائے، فی الحال یہی دعا کی جاسکتی ہے۔
جہاں تک ’ہندو راشٹر‘ کی تشکیل یا ’یونیفارم سیول کوڈ‘ کا نفاذ جیسے معاملے ہیں، موجودہ مرکزی حکومت جسے اسرائیل کے بشمول اکثر بڑی عالمی طاقتوں کی ہر حساس مسئلے پر تائید و حمایت حاصل ہونے لگی ہے، اسے تکنیکی اعتبار سے روکا نہیں جاسکتا۔ ماضی میںایمرجنسی کے دَور میں دستورِ ہند کے دیباچہ میں تبدیلی ہوئی ہے، جو 42 ویں ترمیم کے تحت ’’سکیولر‘‘ اور ’’سوشلسٹ‘‘ کی اصطلاحوں کی شمولیت ہے۔ اس لئے آئندہ سال جب مرکزی حکومت کو لوک سبھا کے ساتھ راجیہ سبھا میں بھی جوڑ توڑ کے بغیر اکثریت حاصل ہوجائے گی تو سازگار ’صدر‘ اور جمہوریت کے دیگر ستونوں کی مدد سے ’بہت کچھ‘ ممکن ہے!!!
اب سارے معاملے دستورِ ہند سے مربوط ہیں۔ چنانچہ اس موقع پر ہمارے ملک کے دستور کے بارے میں جانکاری حاصل کرنے میں مضائقہ نہیں۔ ملاحظہ کیجئے:
ہندوستان کی دستور ساز اسمبلی کی بنیاد اور اس کا انتخاب 9 ڈسمبر 1946ء کو عمل میں لاتے ہوئے اسے ہندوستان کا دستور تحریر کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ 1947ء میں برطانوی حکومت سے ہندوستان کو آزادی نصیب ہونے کے بعد دستور ساز اسمبلی کے 389 اراکین نے قوم کی پہلی پارلیمنٹ کے طور پر کام کیا۔ یوم جمہوریہ سے دو روز قبل 24 جنوری 1950ء کو یہ اسمبلی موقوف کردی گئی۔ دستورِ ہند کو دستور ساز اسمبلی نے 26 نومبر 1949ء کو منظوری دی اور یہ 26 جنوری 1950ء کو نافذ العمل ہوا، جسے ہندوستان میں یوم جمہوریہ کے طور پر مناتے ہیں۔ پھر اکٹوبر 1951ء اور فبروری 1952ء کے درمیان پہلی لوک سبھا کیلئے عام انتخابات منعقد کئے گئے، جس میں انڈین نیشنل کانگریس یا آئی این سی (ال معروف کانگریس) نے 489 نشستوں کے منجملہ 364 جیت کر پنڈت جواہر لعل نہرو کی قیادت میں اقتدار سنبھالا تھا۔
دستور ساز اسمبلی کے عبوری صدرنشین سچیدانند سنہا (آئی این سی) ، صدر ڈاکٹر راجیندر پرساد (آئی این سی)، نائب صدور ہریندر مکرجی اور وی ٹی کرشنماچاری، اور ڈرافٹنگ کمیٹی کے چیئرمین دلتوں کی پہچان اور باصلاحیت شخصیت ڈاکٹر بی آر امبیڈکر (ایس سی ایف) تھے۔ انھوں نے ہی 5 نومبر 1949ء کو ہندوستانی دستور کا قطعی مسودہ صدر ڈاکٹر راجیندر پرساد کے حوالے کیا تھا۔ دستورساز اسمبلی میں ہندوستان کے ہر طبقہ اور برادری کی متناسب نمائندگی رہی۔ اکثریتی برادری ہونے کے ناطے ہندو ارکان کی تعداد زیادہ تھی۔ تقسیم ہند اور تشکیل پاکستان کا ’گھاؤ‘ لگنے کے باوجود مسلمانوں سے نفرت، تعصب، تنگ نظری دستور ساز کمیٹی کے ارکان پر حاوی نہیں ہونے پائے، جس کا ثبوت 103 ترامیم اور آرٹیکل 370 سے قبل کی ہیئت والا دستورِ ہند ہے۔ ہمارے بزرگ تو ضرور واقف ہوں گے، نئی نسل کیلئے جانکاری دینا مناسب سمجھ رہا ہوں کہ کمیٹی کے ممتاز اراکین میں چیئرمین ڈاکٹر امبیڈکر کے ساتھ پہلے وزیراعظم ہند پنڈت جواہر لعل نہرو، پہلے نائب وزیراعظم سردار ولبھ بھائی پٹیل، وزیر تعلیم مولانا ابو الکلام آزاد، صدر کمیٹی ڈاکٹر راجیندر پرساد، گورنر جنرل آف انڈیا سی راج گوپال چاری، رفعت احمد قدوائی ، آصف علی، وزیر صحت و صدر ہندو مہاسبھا شیاما پرساد مکرجی، وزیر صحت راجکماری امرت کور، صدر آل انڈیا ویمنس کانفرنس ہنسہ مہتا، سر سید محمد سعد اللہ (آسام)، گوپال سوامی اینگر، درگا بائی دیشمکھ، فرینک انتھونی (اینگلو۔ انڈین نمائندہ)، سروے پلی رادھا کرشنن، پہلے وزیر ریلوے جان متھائی، کے کامراج، چدمبرم سبرامنیم، سابق انڈین ہاکی کیپٹن و قبائلی لیڈر جئے پال سنگھ منڈا، مولانا حفظ الرحمن و دیگر شامل تھے۔ دستور ساز کمیٹی کے اجلاس ہاؤز آف پارلیمنٹ، نئی دہلی میں منعقد ہوا کرتے تھے۔
دستورِ ہند کی تیاری میں امریکہ اور برطانیہ کے بشمول کم از کم دس ممالک کے دستوروں کے محاسن کو حتی المقدور شامل کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ آفاقی حقیقت ہے کہ انسان کا کوئی کام نقص سے پوری طرح پاک نہیں ہوسکتا، نقص سے پاک کام تو رب العالمین کا خاص وصف ہے۔ ڈاکٹر امبیڈکر کی قیادت میں جو دستورِ تیار ہوا، اس کے بارے میں ایسا دعویٰ کرنے کا کوئی جواز نہیں کہ اس کے معماروں نے مستقبل کے گھناؤنے منصوبے کے ساتھ دستورِ ہند کی تدوین کی۔ یہ بات اس لئے بھی زیادہ اہمیت کی حامل ہے کہ کمیٹی میں ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی اور دیگر لگ بھگ تمام طبقات کی نمائندگی رہی لیکن ہندو ارکان کی خاصی اکثریت تھی۔ پھر تاحال دستور میں جو 103 ترامیم کرنے پڑے، وہ قابل سے قابل انسان کی حدِ قابلیت کا نتیجہ ہے۔
دستورِ ہند کا دیباچہ حسب ذیل ہے، جس میں 42 ویں دستوری ترمیم کے ذریعے 1976ء میں اندرا گاندھی دورِ حکومت میں ’’سکیولر‘‘ اور ’’سوشلسٹ‘‘ کی اصطلاحوں کا اضافہ کیا گیا: ’’ہم ہندوستانی عوام نے اخلاص و سنجیدگی سے ہندوستان کو مقتدراعلیٰ جمہوریت پسند جمہوریہ (42 ویں ترمیم کے بعد … مقتدراعلیٰ سکیولر سوشلسٹ جمہوریت پسند جمہوریہ) بنانے اور اس کے تمام شہریوں کیلئے (مندرجہ ذیل کو) محفوظ کرنے کا عزم کیا ہے:
انصاف … سماجی، معاشی اور سیاسی انصاف؛
آزادی … سوچ و فکر ، اظہار خیال ، عقیدہ، بھروسہ اور عبادت کی آزادی؛
مساوات … درجہ اور موقع میں مساوات؛ اور تمام میں اسے فروغ دینا؛
بھائی چارہ … ہر فرد کے وقار اور قوم کے اتحاد کی یقین دہانی؛
ہماری دستور ساز اسمبلی میں آج چھبیسواں دن، نومبر 1949ء ذریعہ ہٰذا اِس دستور کو اختیار، نافذ کرتے اور اسے خود کو سونپتے ہیں۔
[email protected]