کیا ہندی اور ہندو ہندوستان کے مالک ہوں گے؟

   

پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)

وزیراعظم نریندر مودی 11 اکتوبر 2022ء کو اُجین میں تھے جہاں انہوں نے مہانکالی مندر میں 900 میٹر طویل نئی راہداری کا افتتاح کیا۔ مدھیہ پردیش کا اُجین ، مہانکالی مندر کیلئے مشہور ہے۔ جہاں تک نریندر مودی کا سوال ہے، وہ ایک کٹر ہندو ہیں اور اکثر ہندوستانی کٹر ہندو ہوتے ہیں جبکہ ایسے زیادہ تر ہندوستانی جو ہندو نہیں ہیں، وہ بھی اپنے اپنے مذہب کے کٹر ماننے والے ہیں۔ بہرحال جب نریندر مودی مہا کالیشور مندر گئے، وہاں انہوں نے پرارتھنائیں کی اور مختلف رسوم ادا کئے۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ جس وقت مودی جی وہاں پوجا اور پرارتھنائیں کررہے تھے، تمام چینلوں پر پل پل کے مناظر پوری ذمہ داری کے ساتھ راست نشر کئے جارہے تھے، میں نے جو بھی چیانل دیکھنے کی کوشش کی، اس پر وزیراعظم کو پوجا پرارتھنا وغیرہ کرتے دکھایا جارہا تھا۔ مندر کے سب سے مقدس مقام پر وہ سنہری انگاوسترم اور زعفرانی اسکارف پہنے ہوئے تھے۔ ان کے ماتھے یا پیشانی پر صندل کی لکڑی کا پیسٹ اور اس پر ایک نمایاں تلک لگا تھا جب انہوں نے وہاں لوگوں سے خطاب کیا (میں سمجھتا ہوں کہ تقریباً تمام ہندو ہی تھے) اور یقینا انہوں نے اس کی اچھی خاصی تیاری کرلی تھی۔ اپنے خطاب میں وزیراعظم نے قدیم ترین شہروں اور ملک بھر میں واقع مندروں کی یادیں تازہ کی۔ مودی نے حسب توقع سنسکرت کتب و مخطوطات کا حوالہ دیا اور شیو بھکتی کی اہمیت و افادیت پر بہت کچھ کہا۔ یہ واضح نہیں تھا کہ آیا انہوں نے اپنی تقریر یاد کر رکھی تھی یا ان کے سامنے ایک ٹیلی پرامپٹر (ٹی وی کیمروں سے پوشیدہ) رکھا گیا تھا۔ بہرحال کچھ بھی ہو۔ انہوں نے اپنے فن خطابت کا زبردست مظاہرہ کیا۔ اگر دیکھا جائے تو یہ کوئی معمول کا افتتاحی خطاب نہیں تھا بلکہ وہ تو جیسا کہ کہا گیا ایک پراوچن تھا۔ پراوچن اس خطاب کو کہتے ہیں جو ایک ہندو مبلغ ان تمام ہندو شرکاء سے کرتا ہے اور وہ اس کے ہر لفظ سے پیار کرتے ہیں۔ اپنے خطاب میں مودی نے یہ بھی کہا کہ ہندوستانی ایک روحانی سفر پر گامزن ہے اور ہم ہندوستان کے شاندار روحانی روایات کا احیاء کررہے ہیں۔ انہوں نے اپنے خطاب کو جئے جئے مہانکالی کہتے ہوئے ختم کیا۔ انہوں نے کئی مرتبہ یہ الفاظ ادا کئے اور شرکاء نے بھی پورے جوش و خروش سے وہ الفاظ دہرائے۔ انہوں نے جو خطاب کیا، اس کے ذریعہ دیا گیا پیغام واضح ہے کہ مسٹر مودی جس تاریخ میں یقین رکھتے ہیں، وہ ایک ہندو انڈیا ہے اور وہ ہندوستان مسٹر مودی کے خوابوں کا ایک ہندو انڈیا ہوگا۔
ایسا لگتا ہے کہ ہر چیز مکمل ہے، صرف متضاد یاد دہانی یہ ہے کہ مسٹر نریندر مودی کوئی عام آدمی نہیں ہیں بلکہ وہ ہندوستان کے عزت مآب وزیراعظم ہیں۔ وہ ایسے ملک کے وزیراعظم ہیں جہاں ہندوؤں کی آبادی 79.8%، مسلمانوں کی آبادی 14.2% ہے جبکہ عیسائی آبادی جملہ آبادی کا 2.3% ہے۔ دوسری طرف ہمارے ملک میں سکھ 1.7% اور دوسرے 2.0% پائے جاتے ہیں۔ بہرحال اس ملک کے وزیراعظم کی حیثیت سے دستور نے انہیں اس بات کا پابند کیا ہے کہ وہ تمام ہندوستانیوں کی ترقی و خوشحالی کیلئے کام کریں اور تمام کے حق میں بات کریں اور بتائیں کہ ہندوستان 2000 سال سے کیسے تعمیر ہوا اور ہمارے خوابوں کا ہندوستان تعمیر ہوگا اور اس کی تعمیر میں بلالحاظ مذہب و ملت ،رنگ و نسل اور ذات پات ، لوگوں نے حصہ لیا اور حصہ لیں کہ یہی وجہ ہے کہ دستور ہند نے مساوات کا درس دیا ہے۔ سب کو مساویانہ حقوق عطا کئے ہیں۔ ساتھ ہی حسب ضرورت دستور میں ترامیم بھی کی گئیں۔ ان ترامیم کا مقصد تمام ہندوستانیوں کو ترقی کے ثمرات سے مساویانہ طور پر مستفید کرنا ہے۔ جہاں تک سکیولرازم کا تعلق ہے، وہ ہماری جمہوریت کا جزلاینفک رہا۔
وزیراعظم ہندو عقیدہ، ہندو مذہب کا جشن منا رہے تھے تو دوسری طرف وزیر داخلہ جو سرکاری زبان سے متعلق کمیٹی کے بہ اعتبار عہدہ صدرنشین بھی ہیں۔ ہندی زبان کو تمام ریاستوں پر تھوپنے کی باتیں کررہے تھے۔ سرکاری زبان کمیٹی کی 11 ویں رپورٹ 9 ستمبر 2022ء کو صدرجمہوریہ کو پیش کی گئی۔ اس رپورٹ پر اس وقت تک مکمل خاموشی اختیار کی گئی ۔ جب ’’دی پرنٹ‘‘ نے اس کے متن کو منظر عام پر لایا، یہ متن اور رپورٹ کا تحریری مواد یقیناً غیرہندی ریاستوں میں بے چینی کا باعث بنے گا۔ ’’دی پرنٹ‘‘ نے جو رپورٹ شائع کی ہے، اس میں ہندی کے فروغ کی خاطر کی جانے والی سفارشات کی تفصیلات موجود ہیں جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ کیندریہ ودیالیاؤں، آئی آئی ٹیز اور مرکزی جامعات کا ذریعہ تعلیم ہندی ہوگی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا کے ویز، آئی آئی ٹیز، آئی آئی ایمس اور سنٹرل یونیورسٹیز (غیرہندی ریاستوں میں ہی کیوں نہ واقع ہوں) کا ذریعہ تعلیم ہندی ہوگا؟ آیا ہندی ہی واحد ذریعہ تعلیم ہوگی یا متبادل ذریعہ تعلیم ہوگی؟ سرکاری زبان کمیٹی کی جانب سے جو سفارشات کی گئیں، ان میں یہ بھی کہا گیا کہ سرکاری ملازمتوں میں بھرتی کیلئے منعقد کئے جانے والے امتحانات کی زبان انگریزی کی بجائے ہندی ہوگی اور ایسے سرکاری عہدیداروں سے وضاحت طلب کی جائے گی جو ہندی میں کام نہیں کرتے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا ایک ایسا عہدیدار جس کی زبان بنگالی، اڑیا یا ٹامل ہے، اسے ہندی سیکھنے اور اپنا سرکاری کام ہندی زبان میں کرنے کیلئے مجبور کیا جائے گا؟ سفارشات میں یہ بھی کہا گیا کہ انگریزی ذریعہ تعلیم ان ہی مقامات پر برقرار رہے گا جہاں وہ ضروری ہوجائے اور بتدریج اسے ہندی سے بدل دیا جائے گا۔ اس سلسلے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا والدین ؍ سرپرستوں اور طلبہ کو یہ حق حاصل نہیں رہے گا کہ وہ اپنی تعلیم کیلئے اپنی پسند کی زبان کا انتخاب کرے۔ صدرجمہوریہ کو پیش کردہ رپورٹ میں یہ بھی سفارش کی گئی کہ سرکاری ملازمتوں کیلئے ملازمین کے انتخاب میں ہندی سے واقفیت کو یقینی بنایا جائے گا۔ سفارشات میں ایک سفارش یہ بھی ہے کہ حکومت اشتہارات کیلئے جو بجٹ مختص کرتی ہے، اس کا 50% حصہ ہندی اشتہارات کیلئے مقرر کردیا جانا چاہئے۔ اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر مابقی 50% اشتہارات دوسری تمام زبانوں کیلئے مختص ہو (بشمول انگریزی زبان) تو کیا یہ غیرہندی میڈیا کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوگی اور اس کا فروغ نہیں رک جائے گا۔ ایک اور سفارش یہ کی گئی کہ ہندی کے پروپگنڈے کو تمام ریاستی حکومتوں کیلئے دستوری طور پر لازمی قرار دیا جانا چاہئے۔ ان تمام صورتوں میں اگر میں آسامی یا ملیالی ہوں تب میں خود کو نصف شہری محسوس کروں گا اور اگر میں مسلمان یا عیسائی ہوں تب بھی مجھ میں احساس پیدا ہوگا کہ آیا میں اس ملک کا شہری نہیں ہوں۔