کیا ہند۔پاک ،برطانیہ کی تقسیم کا فیصلہ کریں گے؟

   

محمد ریحان
آج کل ایسا لگتا ہے کہ مغربی و یوروپی ملکوں میں ایشیائی نژژاد سیاستدانوں بالخصوص ہندوستانی اور پاکستانی نژاد سیاستدانوں کی دھوم ہے اور وہ کئی اہم عہدوں پر فائز ہیں۔ مثال کے طور پر ہندوستانی نژاد سیاست دانوں کی دھوم ہے اور وہ کئی اہم عہدوں پر فائز ہیں۔ مثال کے طور پر ہندوستانی نژاد رشی سنک برطانیہ کے عہدہ وزارت عظمی پر فائز ہیں یہ اور بات ہیکہ پاکستانی انہیں پاکستانی نژاد کہتے ہیں کیونکہ رشی سنک کے دادا دادی کا تعلق غیر منقسم ہندوستان کے علاقہ گجرانوالہ سے تھا جو اب پاکستان میں ہے اسی طرح ان کے نانا، نانی لدھیانہ سے تعلق رکھتے تھے۔ رشی سنک کے دادا دادی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پہلے وہ ایسٹ آفریقہ منتقل ہوئے اور وہاں سے 1960 کے دہے میں برطانیہ منتقل ہوگئے۔ جہاں تک رشی سنک کا تعلق ہے وہ ایسے وقت برطانیہ کے عہدہ وزارت عظمی پر فائز ہوئے جبکہ روس۔ یوکرین جنگ کے نتیجہ میں برطانیہ کی معیشت شدید متاثر ہوئی ہے ۔ مہنگائی میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے اس کے ساتھ انہیں داخلی اور خارجی سطح پر کئی ایک چیلنجس کا سامنا ہے۔ بہرحال آپ کو رشی سنک کے برطانیہ کے وزیر اعظم بننے، ایک اور ہندوستانی نژاد لیوورادکر کا آئرلینڈ کے عہدہ وزارت عظمی پر فائز ہونے اور اب پاکستانی نژاد حمزہ یوسف کو اسکاٹ لینڈ کے فرسٹ منسٹر کے باوقار عہدہ پر متمکن کئے جانے سے واقف کروانے کا مقصد یہ بتاتا ہے کہ مغربی دنیا کو اچھی طرح احساس ہوگیا ہیکہ انہیں جن مسائل چیلنجز اور بحرانوں کا سامنا ہے وہ ایشیائی نژآد سیاستدانوں کی قیادت میں ہی حل کئے جاسکتے ہیں۔ جہاں تک برطانیہ اور اسکاٹ لینڈ میں بالترتیب رشی سنک اور حمزہ یوسف کو وزیر اعظم بنائے جانے کا سوال ہے اس پر ہمارے ذہن میں کئی سوالات گردش کرنے لگے ہیں اور ہم یہ سوچنے لگے ہیں خدا کی کیا قدرت ہے وہ جسے چاہے حاکم اور جسے چاہے محکوم بناتا ہے جسے چاہے اقتدار پر بیٹھاتا ہے اور جسے چاہے اقتدار سے بیدخل کرکے زوال سے دوچار کردینا ہے۔ آپ اور ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ انگریز ہندوستان میں تجارت کے بہانے داخل ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے اپنی مکاری و عیاری کے ذریعہ یہاں کے دیہی حکمرانوں کی حکمرانی میں مداخلت شروع کردی اور پھر دیسی حکمرانوں، بادشاہوں، سلطانوں، نوابوں اور راجہ رجواڑوں کو اپنے اشاروں پر ناچنے پر مجبور کیا۔ بیٹے کو باپ کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے پر مجبور کیا تو اقتدار تحت و تاج کے لئے بھائی کے ہاتھوں بھائی کی گردن کٹائی۔ اپنے کے ہاتھوں اپنوں کا ہی قتل و غارت گری کروائی۔ لوٹ مار کا بازار گرم کروایا۔ سازشوں کے ایسے ایسے جال پھیلائے کہ دیسی حکمراں انگریزی کے تابع ہوگئے ان کے مفادات کی نگہبانی کرنے لگے اس طرح انگریزوں نے سونے کی چڑیا کہلانے والے ہندوستان کو جی کھول کر لوٹا یہاں کے قدرتی وسائل کے ذریعہ اپنے اور اپنے ملک کے خزانہ بھر دیئے اور جن مجاہدین آزادی نے ان کے ظلم و جبر اور غلامی کے خلاف آواز اٹھائی آزادی کا مطالبہ کیا انہیں زندگیوں سے محروم کردیا گیا اور اپنے وفادار کتوں کے سامنے وظیفوں اور معافی نامہ کی شکل میں ہڈیاں ڈالدیں۔ بہرحال قدرت نے ایسا وقت پیدا کردیا کہ ہندوستان اور ہندوستانیوں کو پورے 200 سال تک اپنی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رکھنے والے برطانیہ کے عہدہ وزارت عظمی پر ایک ہندوستانی نژاد رشی سنک، اسکاٹ لینڈ کے عہدہ فرسٹ منسٹر پر ایک پاکستانی نژاد اور آئرلینڈ کے عہدہ وزارت عظمی پر ایک ہندوستانی نژاد کو فائز کردیا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ 12 مئی 1980 کو پیدا ہوئے رشی سنک اکتوبر 2022 سے برطانیہ کے عہدہ وزارت عظمیٰ پر فائز ہیں اور برطانیہ کی کنزرویٹیو پارٹی کے لیڈر کی حیثیت سے نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ لنکن کالج اور آکسفورڈ کے ساتھ ساتھ اسٹانفورڈ یونیورسٹی کیلیفورنیا سے ایم بی اے کرنے والے رشی سنک 2020-22 تک برطانیہ کے وزیر خزانہ رہے۔ برطانیہ میں وزیر اعظم کے بعد وزیر فینانس کو اہمیت دی جاتی ہے۔ مسٹر رشی سنک سال 2015 سے رچمنڈ (YORKS) سے رکن پارلیمنٹ منتخب ہوتے آرہے ہیں۔ انہوں نے سابق وزیر اعظم تھریسامے کے دور حکومت میں پارلیمنٹری انڈر سکریٹری آف اسٹیٹ فار لوکل گورنمنٹ کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ انہوں نے ہندوستان کے ممتاز صنعت کار و انفوسیس کے بانی این آر نارائن مورتی کی بیٹی اکشتا مورتی سے شادی کی۔ اکشتا مورتی کی دولت کے بارے میں کہا جاتا ہیکہ وہ 5956 کروڑ روپے (721 ملین امریکی ڈالرس) کی مالک ہیں جو آنجہانی ملک ایلزبیتھ کی دولت سے بھی زیادہ ہے۔ اکشتا مورتی اور رشی سنک کی مشترکہ دولت 730 ملین پاؤنڈس (830 ملین امریکی ڈالرس) ہے برطانیہ کے 250 دولت مند ترین شخصیتوں میں رشی سنک اور اکشتا مورتی کا نمبر 222 واں مقام ہے۔ رشی سنک تین بھائیوں میں بڑے ہیں۔ انہوں نے وزیر خزانہ کی حیثیت سے نمایاں خدمات انجام دیں۔ 200 سال کی تاریخ میں برطانیہ کے پہلے ہندوستانی نژاد اور کم عمر 42 سالہ وزیر اعظم ہونے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔ اب دوسری طرف حمزہ یوسف کی طرف چلتے ہیں، حمزہ یوسف اسکاٹ لینڈ کے پہلے پاکستانی و ایشیائی نژاد اور مسلم فرسٹ منسٹر ہیں ان کی پیدائش 7 اپریل 1985 کو ہوئی، 37 سالہ حمزہ یوسف ایک راسخ العقیدہ مسلمان ہیں۔ اپنے انتخاب کے فوری بعد انہوں نے اپنے دفتر میں باجماعت نماز کا اہتمام کیا اور خود امامت کی جہاں انہیں اسکاٹ لینڈ کے پہلے مسلم اور پاکستانی نژاد فرست منسٹر ہونے کا اعزاز حاصل ہے وہیں اسکاٹ لینڈ کی قوم پرست حکمراں جماعت اسکاٹش نیشنل SNP پارٹی کے پہلے مسلم لیڈر ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ ان کا انتخاب 29 مارچ 2023 کو عمل میں آیا۔ اس سے پہلے فرسٹ منسٹر کی حیثیت سے نکولا اسٹرجیون نے استعفے دے دیا تھا۔ حمزہ یوسف نے اردو میں حلف لیتے ہوئے کچھ یوں الفاظ ادا کئے ’’میں حمزہ یوسف ایمانداری اور سچے دل سے یہ اعلان کرتا ہوں کہ میں ہمیشہ ہر میجسٹک ایلزیبتھ ان کے قانونی وارثوں ان کے جانشینوں کا وفادار اور سچے دل سے تابع دار رہوں گا اور اس میں خداوند کریم میری مدد فرمائے‘‘۔ بہرحال ایک ہندوستانی نژاد اور دوسرے پاکستانی نژاد سیاستدانوں کا عہدے وزارت عظمی پر فائز ہونا کچھ سوالات بھی پیدا کرتا ہے۔ مثلاً رشی سنک کے دور وزارت عظمی میں اسکاٹ لینڈ کے باشندے آزادی کے حق میں ووٹ ڈالیں گے اور ایک ہندوستانی اور پاکستانی کیا برطانیہ کی تقسیم کا فیصلہ کریں گے۔ بہرحال قدرت کیا کیا دن دکھاتی ہے اور ہر طاقت کو زوال سے بھی دوچار کرتی ہے۔