متنازعہ قوانین پر عمل آوری کی صورت میں کسانوں کے اختیارات ختم ہوجائیں گے: چیف منسٹر وجیئن
تھرواننتاپورم : دہلی میں احتجاجی کسانوں کے ساتھ یگانگت کا اظہار کرتے ہوئے کیرالا اسمبلی نے جمعرات کو متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور کی جس کے ذریعہ تینوں متنازعہ مرکزی زرعی قوانین سے فوری دستبرداری کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ قرارداد میں کہا گیا کہ یہ قوانین مخالف کسان اور موافق تجارتی ادارہ جات ہیں اور ان کے نتیجہ میں کاشتکار برادری گہرے بحران کا شکار ہوجائے گی۔ غیرمعمولی خیرسگالی کے مظاہرہ میں برسر اقتدار سی پی آئی (ایم) زیرقیادت ایل ڈی ایف اور کانگریس کی یو ڈی ایف کے لیجسلیٹرس کے ساتھ ساتھ 140 رکنی ریاستی اسمبلی میں واحد بی جے پی رکن او راجگوپال نے بھی مرکز کے خلاف اِس قرارداد کی حمایت کرتے ہوئے کہاکہ یہ جمہوری جذبہ کے تحت تائید اور یگانگت کا اظہار ہے۔ تاہم، راجگوپال نے قرارداد میں بعض حوالہ جات کی مخالفت کی۔ یہ قرارداد کوویڈ ۔ 19 پروٹوکول کی تعمیل کے ساتھ منعقدہ تقریباً دو گھنٹے طویل خصوصی اجلاس میں پیش کی گئی۔ چیف منسٹر پی وجیئن نے قرارداد پیش کرتے ہوئے الزام عائد کیاکہ مرکزی قوانین کارپوریٹ اداروں کی مدد کے لئے بنائے گئے ہیں۔ مرکز نے پارلیمنٹ میں تینوں زرعی قوانین پیش کرتے ہوئے ایسے وقت اُنھیں منظور کرالیا جبکہ زرعی شعبہ شدید بحران سے دوچار ہے۔ چیف منسٹر نے کہاکہ تینوں متنازعہ زرعی قوانین کو پارلیمنٹ کی اسٹانڈنگ کمیٹی سے رجوع کئے بغیر منظور کرالیا گیا۔ اگر یہ ایجی ٹیشن جاری رہتا ہے تو اِس کا کیرالا پر شدید اثر پڑے گا جو صارف ریاست ہے۔ اُنھوں نے کہاکہ زراعت کے شعبہ میں اصلاحات پر کافی غور و خوض اور باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد عمل کیا جانا چاہئے۔ موجودہ قوانین پر عمل آوری ہوتو کسانوں کا تول مول کرنے کا اختیار کمزور پڑجائے گا جس سے کارپوریٹ سیکٹر فائدہ اُٹھائے گا۔ موجودہ قوانین میں ایسی کوئی گنجائش نہیں کہ کسانوں کے لئے قانونی تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے۔ چیف منسٹر وجیئن نے کہاکہ کسان اختلاف رائے کی صورت میں کارپوریٹ اداروں کے ساتھ قانونی لڑائی لڑنے کے موقف میں بھی نہیں ہوں گے۔ یہ بات واضح ہے کہ ایجی ٹیشن کا بڑا سبب اِن قوانین کے باعث زرعی اشیاء کی قیمتوں میں ممکنہ گراوٹ ہے۔ چونکہ زراعت ریاستی موضوع ہے اور یہ راست طور پر ریاستوں کو متاثر کرتا ہے، اِس لئے مرکزی حکومت کو بین ریاستی کمیٹیوں کے اجلاس طلب کرنا چاہئے تھا اور قوانین کی منظوری سے قبل تفصیلی مشاورتیں ہونی چاہئے تھیں۔