کیلیفورنیا کے بعد نیویارک میں بھی لاک ڈاؤن

   

l صرف لازمی خدمات انجام دینے والوں کو باہر نکلنے کی اجازت l 65000 ریٹائرڈ ڈاکٹروں اور نرسوں کی خدمات کا حصول
l ہوٹلس اور شادی خانے عارضی فیلڈ ہاسپٹلس میں تبدیل l نیویارک کے گورنر اینڈریو کومو کے مؤثر اقدامات

فی الحال ملک بھر میں لاک ڈاؤن زیر غور نہیں:ٹرمپ
دریں اثناء امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا کہ وہ کورونا وائرس (کووڈ۔19) کے بڑھتے کیسز کے پیش نظر تمام امریکی شہریوں کو گھر کے اندر رکھنے کے لئے فی الحال ملک بھر میں لاک ڈاؤن پر غور نہیں کر رہے ہیں۔مسٹر ٹرمپ نے صدر دفتر وائٹ ہاؤس میں جمعہ کو صحافیوں کو بتایا’’میں ایسا نہیں سوچتا۔ ہم نے کیلی فورنیا میں ایسا بنیادی طور پر کر دیا ہے ۔ ہم نے نیویارک میں ایسا کیا ہے ۔یہ دونوں ریاستیں کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہے ‘‘۔

نیویارک 21 مارچ (سیاست ڈاٹ کام) کیلیفورنیا میں جس طرح رات کا کرفیو نافذ کیا گیا ہے اُسے دیکھتے ہوئے اب نیویارک والوں کو بھی یہ خیال آیا کہ کورونا وائرس سے اگر مؤثر طور پر نمٹنا ہے تو خود کو گھروں میں قید کرلیا جائے۔ اس طرح جب کوئی باہر نکلے گا ہی نہیں تو ملاقاتیں بھی نہیں ہوں گی اور ملاقاتیں نہیں ہوں گی تو ایک دوسرے کے جسمانی لمس بھی نہیں ہوں گے۔ نیویارک کے گورنر اینڈریو کومو نے کہاکہ اب ہم بھی کیلیفورنیا کی طرز پر نیویارک کو بند کرنے والے ہیں کیوں کہ جس تیز رفتاری سے حالات بدل رہے ہیں اور کورونا وائرس ایک سے دوسرے میں پھیلتا جارہا ہے اُس کے لئے اب صرف ایک ہی راستہ ہے کہ اُس کا راستہ بند کردیا جائے۔ اُس کا راستہ کیسے بند ہوگا؟ اُس کا طریقہ یہ ہے کہ ہم خود اپنے آپ کو چہار دیواری میں بند کرلیں۔ متاثرین کی تعداد 7000 ہوگئی ہے جو معمولی بات نہیں ہے جبکہ مہلوکین کی تعداد 38 ہوگئی۔ مسٹر کومو نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہاکہ اتوار کے روز سے ہم ایک نئے طریقہ کار پر عمل کریں گے۔ ایسے لوگ جو لازمی خدمات سے وابستہ نہیں ہیں، وہ گھروں میں رہیں گے اور ایسے افراد جن کی خدمات سماج کے لئے ضر وری ہے صرف اُنھیں ہی کام کرنے کی اجازت ہوگی۔ علاوہ ازیں شہر میں تقریبات کا اہتمام نہیں کیا جائے گا۔ کیلیفورنیا میں اب تک امریکہ کا سب سے بڑا لاک ڈاؤن کیا جاچکا ہے اور نیویارک میں بھی ایسا کرنا کم و بیش طے ہے۔ دوسری طرف اسپین اور اٹلی کے ہاسپٹلس کورونا وائرس کے مریضوں سے بھرے پڑے ہیں جبکہ عالمی سطح پر کورونا مہلوکین کی تعداد 10,000 سے تجاوز کرچکی ہے اور وائرس نئے نئے مقامات پر حملہ آور ہورہا ہے۔ وائرس کے تیزی سے پھیلنے کے عمل کو عالمی صحت تنظیم نے بھی خصوصی طور پر نوٹ کیا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پہلے دس ہزار تصدیق شدہ کیسز کیلئے تین ماہ کا عرصہ لگا جبکہ 1,00,000 کی تعداد تک پہنچنے کے لئے صرف 12 دن ہی لگے۔ پورے امریکہ میں ریاستوں کے گورنرس اور صحت عہدیداروں نے بھی دیکھ لیا ہے کہ وینٹیلیٹرس، ماسک اور دیگر حفاظتی اشیاء کی قلت ہوتی جارہی ہے جبکہ کئی ممالک نے بڑھتے ہوئے مریضوں کی تعداد کا سامنا کرنے کے لئے خود کو ذہنی اور طبی طور پر تیار کرلیا ہے۔ برطانیہ میں 65000 ریٹائرڈ ڈاکٹروں اور نرسوں کو دوبارہ خدمات انجام دینے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اسپین میں ہوٹلس اور شادی خانوں کو مریضوں کے علاج کے لئے عارضی فیلڈ ہاسپٹلس میں تبدیل کردیا گیا ہے۔