کیمپ ڈیوڈ میں ٹرمپ۔غنی ملاقات منسوخ، بات چیت کے دروازے ہنوز کھلے

   

Ferty9 Clinic

= امریکہ افغانستان میں موجود 13000 امریکی فوجیوں کے منجملہ 5000 فوجیوں کے آئندہ سال انخلاء کا خواہاں
= طالبان کے حملہ میں ایک امریکی فوجی کی ہلاکت بات چیت کی منسوخی کی اہم وجہ، بیک وقت لڑائی اور صفائی ممکن نہیں
واشنگٹن ۔ 9 ۔ ستمبر (سیاست ڈاٹ کام) اتوار کے روز امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور افغانستان کے طالبان اور افغانی صدر اشرف غنی کے درمیان بات چیت کا جو نیا مرحلہ شروع ہونے والا تھا ، وہ اچانک منسوخ کردیا گیا لیکن ہمیشہ کی طرح یہ بات دہرائی گئی ہے کہ بات چیت کے دروازے مستقبل میں بھی کھلے رہیں گے ۔ (اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جس لیڈر کے ساتھ بھی ٹرمپ بات چیت کرتے ہیں ، اس کے فیصلہ کن نتائج سامنے نہیں آئے۔ مثلاً شمالی کوریا کے کم جونگ ان کے ساتھ ہوئی ملاقاتوں کا نتیجہ بھی صفر ہی رہا )۔ ٹرمپ کا استدلال یہ ہے کہ انہوں نے طالبان قائدین اور افغان صدر کو اتوار کے روز کیمپ ڈیوڈ کی صدارتی تفریح گاہ میں بات چیت کے لئے مدعو کیا تھا ( کیمپ ڈیوڈ وہی مقام ہے جہاں ماضی میں کئی سابق امریکی صدور نے اہم مذاکرات کا انعقاد کیا تھا) تاکہ افغانستان سے امریکی فوج کا تخلیہ کروایا جائے اور امریکہ اپنی طویل ترین جنگ کو ختم کرسکے ۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف بات چیت کی راہیں ہموار کی جارہی ہیں تو دوسری طرف طالبان ایک حملہ میں ایک امریکی فوج کو ہلاک کردیتے ہیں، لہذا لڑائی اور صفائی ایک ساتھ کیسے ہوسکتی ہے ؟ اس طرح امریکی وزیر خارجہ مائیک پومبیو نے بھی متعدد ٹیلی ویژن انٹرویوز میں امریکہ کی بات چیت کیلئے واپسی کے امکان کو مسترد نہیں کیا ہے لیکن یہ کہنے سے بھی نہیں چوکے کہ طالبان کو بھی اس سلسلہ میں اپنے مثبت عزائم کا مظاہرہ کرنا پڑے گا کیونکہ اب تک طالبان کی جانب سے سنجیدگی نظر نہیں آرہی ہے ۔ میں ناامید نہیں ہوں ۔ میں نے طالبان کو وہ سب کچھ کرتے اور کہتے ہوئے دیکھا ہے ، جیسے کہنے اور کرنے کی انہیں اجازت نہیں تھی لیکن مجھے اب بھی توقع ہے کہ طالبان بات چیت کو اسی رخ پر لیجائیں گے جس کے لئے ہم ان کے ساتھ کئی ماہ سے بات چیت کر رہے ہیں۔ آخر میں یہی کہنا پڑتا ہے کہ بات چیت کی میز پر واپس آنا ہی سب سے بڑی سنجیدگی ہے اور یہ کہنا کہ وہ (طالبان) اشرف غنی کی عالمی سطح پر مسلمہ حکومت سے بات چیت نہ یں کریں گے ، ایک غیر منطقی مطالبہ ہے ۔ مائیک پومپیو نے کہا کہ صدر ٹرمپ نے بھی اب تک اس بارے میں کوئی قطعی فیصلہ نہیں کیا ہے کہ امریکی فوج کے افغانستان سے تخلیہ معاملہ میں تیزی سے پیشرفت کی جائے گی جو معا ہدہ کے مسودہ کے مطابق افغانستان میں موجود 13000 امریکی فوجیوں کے منجملہ 5000 فوجیوں کا آئندہ سال تک تخلیہ کروایا جائے گا ۔ مائیک پومپیو نے اے بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے یہ بات کہی اور خصوصی طور پر اس نکتہ پر زور دیا کہ امریکہ طالبان پر اپنے دباؤ کو کم نہیں کرے گا جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صرف گزشتہ دس دنوں کے اندر امریکی فوج نے طالبان کے زائد از 1000 شورش پسندوں کو ہلاک کردیا ہے ۔ دوسری طرف امریکہ کے افغانستان کے لئے خصوصی مذاکرات کار زلمے خلیل زاد نے طالبان سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے پورا ایک سال گزار دیا اور طالبان کا یہ کہنا کہ امریکی صدر نے نہ تو تجربہ کا مظاہرہ کیا ہے اور نہ ہی تحمل کا ۔ جبکہ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک انتباہی بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ کے فیصلہ سے امریکی شہریوں کا ہی سب سے زیادہ نقصان ہوگا۔