کسی نئے ضلع کو مسلم نام نہیں دیا گیا
مسلمان ہر شعبہ حیات میں نظر انداز
محمد نعیم وجاہت
یہ ہمارے ملک کی بد قسمتی ہیکہ عوام مذہبی جذبات کے استحصال کا بڑی آسانی سے شکار ہو جاتے ہیں اس سلسلہ میں سیاسی جماعتیں جی کھول کر فائدہ اٹھاتی نہیں۔ اس معاملے میں بی جے پی سب سے زیادہ آگے دکھائی دیتی ہے اور جو کوئی سیاسی رہنما اسے نظر آیا ہے۔ اس رہنما پر زعفرانی رنگ چڑھانے کی پوری پوری کوشش کی جاتی ہے۔ بی جے پی ایک ایسی پارٹی ہے جس میں تحریک آزادی میں حصہ لینے والے قائدین کو انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے، لیکن اس نے کانگریس کے صفحہ اول کے فائد ہندوستان کے پہلے وزیر داخلہ و نائب وزیر اعظم سردار پٹیل کو بی جے پی یا سنگھ پریوار کے نظریات پر اترنے والا قائد قرار دیتے ہوئے انہیں اپنے سرپرست کے طور پر پیش کرنا شروع کردیا۔ ان کی یوم پیدائش اور برسی تقاریب کو بڑے ہی عقیدت مند کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ ان کی شان میں بی جے پی کے قائدین قصیدے پڑھتے ہوئے اور سوشل میڈیا پر ایک پہ دوسرے سبقت لیجانے کے معاملے میں تھکتے نہیں ہیں اور گجرات میں تو مودی جی نے سردار پٹیل کا قد آور مجسمہ تنصیب کرتے ہوئے اس کو یونٹی اسٹیچیو کا نام دیتے ہوئے سردار پٹیل پر اپنا حق جتا دیا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہی وہ سردار پٹیل ہے۔ جنہوں نے بابائے قوم مہاتما گاندھی کے قتل کے سلسلے میں سنگھ پریوار کی سرپرست تنظیم آر ایسا یس پر پابندی عائد کردی تھی۔ اب ہماری ریاست تلنگانہ میں بھی ایسا ہی سب کچھ کیا جارہا ہے۔ چیف منسٹر کے سی آر کو اچانک نرسمہا راو اچھے دیکھائی دینے لگے ہیں حالانکہ پچھلے ساڑھے 6 سال سے ٹی آر ایس تلنگانہ پر حکمرانی کررہی ہے۔ اسی دوران پی وی نرسمہا راو کی 6 مرتبہ یوم پیدائش اور برسی تقاریب بھی آئی چیف منسٹر، ریاستی وزراء اور ٹی آر ایس کیڈر نے کبھی نرسمہا راؤ کو یاد نہیں کیا۔ مگر اس سال پی وی نرسمہا راو کی 100 ویں یوم پیدائش پر انہیں بڑے پیمانے پر خراج عقیدت پیش کرنے اور ایک سال تک صدی تقاریب منانے کا فیصلہ کرتے ہوئے 10 کروڑ روپے بھی مختص کئے گئے ہیں۔ ضلع ورنگل کا نام تبدیل کرتے ہوئے نرسمہا راو کے نام سے موسوم کرنے کی تجویز تیار کی گئی ہے۔ پی وی نرسمہا راو کو بھارت رتن سے نوازنے کے علاوہ حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی کا نام تبدیل کرتے ہوئے پی وی نرسمہا راو سے موسوم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے چیف منسٹر کے سی آر کی جانب سے وزیر اعظم نریند مودی کو مکتوب روانہ کیا گیا ہے اور صدی تقاریب میں یہ پی وی نرسمہا راو کو نظرانداز کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔ پی وی نرسمہا راو کاپٹنٹ حق حاصل کرنے کے لئے ٹی آر ایس اور بی جے پی میں مسابقت شروع ہوگئی ہے۔ نرسمہا راو کی یوم پیدئش تقاریب پر تلنگانہ بی جے پی نے انہیں بھرپور خراج عقیدت پیش کیا اور کہا کہ نرسمہا راو نے رام مندر کی تعمیر کے لئے راہ ہموار کی ہے۔
مرکزی مملکتی وزیر داخلہ امیت شاہ اور مودی کو پی وی نرسمہا راو کی یاد میں ڈاک ٹکٹ کی اجرائی کے لئے رضامند بھی کرلیا ہے۔ تلنگانہ کے سپوت نرسمہا راو نے یقینا ملک میں معاشی اصلاحات کا آغاز کرتے ہوئے ملک کی معیشت کو استحکام کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ اس سے کسی کو کوئی انکار نہیں ہے۔ تاہم ان کے بحیثیت چیف منسٹر آندھرا پردیش اور ملک کے وزیر اعظم کا جو دور تھا وہ کٹر پسند قائد کی عکاسی کرتا تھا۔ وہ حضور نظام کے مخالف تھے ہی ساتھ ہی انہوں نے بحیثیت چیف منسٹر ایسے کئی فیصلے کئے اور قوانین بنائے جس سے آندھرا پردیش میں ہزاروں ایکڑ اراضی کے مالک مسلمان اپنی اراضیات سے محروم ہوگئے۔ پی وی نرسمہا راو کی حکمرانی سے مسلمان اپنی جائیداد سے محروم ہوگئے ساتھ ہی ان کے مذہبی جذبات سے بھی کھلواڑ کیا گیا۔ جب وہ وزیر اعظم کے عہدے پر فائز تھے۔ تمام بابری مسجد شہید کردی گئی جس کے بعد ملک بھر میں فسادات بھڑک اٹھیں جس میں بھی مسلمانوں کا بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوا ہے۔ مسلمانوں کو نقصان پہونچانے کی وجہ سے نرسمہا راو بی جے پی کے چاہتے بن گئے ہیں یہ سمجھ میں آتا ہے لیکن ٹی آر ایس کے سربراہ و چیف منسٹر تلنگانہ کے سی آر کو کیوں نرسمہا راو سے محبت ہوگئی ہے۔ اس یہ حیرت ہو رہی ہے اور حیرت کی بھی کئی وجوہات ہیں کیونکہ تلنگانہ تحریک کے دوران یہی کے سی آر اور ان کی پارٹی ٹی آر ایس نے پی وی نرسمہا راو کو مخالف تلنگانہ قرار دیا تھا۔ چیف منسٹر مرکزی وزارت اور وزیر اعظم کے عہدوں پر فائز ہونے کے باوجود تلنگانہ کی ترقی کو نظرانداز کرنے آندھرائی قیادت کی غلامی کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے ان کی توہین کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا تھا۔ لیکن آج نرسمہا راو کے لئے دکھائی جانے والی محبت حیران کردینے والی ہے۔ سونیا گاندھی نے جیسے ہی کانگریس کی صدارت قبول کی تھی سب سے پہلے انہوں نے نرسمہا راو کو پارٹی کی سرگرمیوں سے الگ تھلگ کردیا تھا۔ جس کا بی جے پی نے فائدہ اٹھاتے ہوئے نرسمہا راو پر اپنی مہر لگانے کے کام کا آغاز کردیا تھا اب اس دوڑ میں ٹی آر ایس بھی کود پڑی ہے۔ کے سی آر کے بدلتے ہوئے تیور سے مسلمانوں میں تشویش پائی جاتی ہے کہ تلنگانہ تحریک کے دوران مسلمانوں کو تحریک سے قریب کرنے کے لئے کے سی آر نے حضور نظام کو رول ماڈل قرار دیا تھا۔ ان کے دور حکومت کے کارناموں، آبپاشی پراجکٹس کی تعمیرات، محکمہ مال کا نظام کے علاوہ دوسرے کاموں کی ستائش کرتے ہوئے علیحدہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے بعد حضور نظام کو انکا مستحقہ مقام دلانے کا وعدہ کیا تھا۔ ایک مرتبہ حضور نظام کی برسی کے موقع پر ان کی مزار پر پہونچکر گلہائے عقیدت بھی پیش کیا تھا۔ تاہم ٹی آر ایس کے ساڑے چھ سالہ دور اقتدار میں حضور نظام کو پوری طرح بھلا دیا گیا جبکہ کاکتیہ دور حکومت کے احیاء کے لئے اقدامات کئے گئے مگر سلطنت آصفیہ یا میر عثمان علی خان کے کارناموں کو پوری طرح نظرانداز کردیا گیا جبکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ 1965 کی ہند۔پاک جنگ میں حضور نظام نے ہندوستانی حکومت کو 5 ٹن سونے کا عطیہ بھی دیا تھا۔ سقوط حیدرآباد میں جو کچھ بھی ہوا ہے ایک لمبی داستان ہے۔ مسلمانوں پر جو ظلم و ستم ہوئے ہیں جس کو کبھی فراموش نہیں کیا جاتا مگر سردار پٹیل کی اس کارروائی کی بی جے پی ہمیشہ ستائش کرتی ہے اور انہیں اپنا ہیرو تصور کرتے ہوئے قبضہ کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار کے قائدین انتخابی مہم یا دوسرے پروگراموں میں جب بھی شہر حیدرآباد یا تلنگانہ کا دورہ کرتے ہیں ہندو ووٹوں کو متحد کرنے کے لئے ہمیشہ نظام کے خلاف زہر اگلتے ہیں۔ ان کی تعمیرات ترقیاتی کاموں کی کبھی ستائش نہیں کرتے اور ناہی پاکستان کے ساتھ کی گئی جنگ کے لئے نظام نے 5 ٹن سونے کا جو عطیہ دیا ہے اس کو کبھی یاد کرتے ہیں۔ اب لگتا ہے تلنگانہ کی تحریک میں کے سی آر اور کو مسلمانوں کے تائید کی ضرورت تھی اس لئے نظام کی تعریف کرتے ہوئے مسلمانوں کا اعتماد حاصل کیا گیا۔ علیحدہ ریاست کی تشکیل کے بعد دو انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد ٹی آر ایس کی پالیسی۔ نظریہ اور منصوبہ بندی میں تبدیلی نظر آرہی ہے اور وہ سب ہندوتوا کے طرف نرم گوشہ اختیار کررہی ہے۔ علیحدہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے بعد اضلاع کی تشکیل جدید کرتے ہوئے 33 نئے اضلاع کا اضافہ کردیا گیا۔ جس میں ایک ضلع کا نام بھی مسلمانوں سے موسوم نہیں کیا گیا۔ کئی آبپاشی پراجکٹس کی تعمیرات کا آغاز کیا گیا۔ ایک بھی پراجکٹ کو مسلم نام سے موسوم نہیں کیا گیا۔ کانگریس کے دور حکومت میں جو ایک آبپاشی پراجکٹ مسلم نام سے موسوم تھا اس کا نام بھی تبدیل کردیا گیا۔ کئی بڑی بڑی منادر تعمیر کئے جارہے ہیں کبھی مساجد یا دوسرے مذہبی عبادت کی تعمیر نہیں کی گئی۔ منادر کے پجاریوں کو سرکاری ملازمت کے طرز پر ماہانہ تنحواہیں ادا کی جارہی ہیں جبکہ پیش امام و موذنوں کو معمولی مشاہرہ دیا جارہا ہے۔ اس کی بھی کوئی پابندی نہیں ہے۔
ٹی آر ایس کی تائید کرنے والی سیاسی۔ مذہبی اور رضاکارانہ تنظیموں کی ذمہ داری ہے وہ اس پر اپنا کھل کر موقف پیش کریں صرف اخبارات میں بیان بازی پر اکتفا کرنا انہیں زیب نہیں دیتا۔ چیف منسٹر کے ہر فیصلے کی طوطے کی طرح تائید نہ کریں۔ بلکہ حقوق کو منوانے اور حصول انصاف کے لئے پہلے انہیں اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ حق گوئی کے معاملہ میں خاموشی اختیار کرتے ہوئے اس کو مصلحت قرار دینا ضمیر فروشوں کی علامت ہوتی ہے۔ نرسمہا راو کی ہی صدی تقاریب نہیں اور بھی کئی مسائل ہیں جن سے مسلمان پریشان ہیں یا ان کی حق تلفی ہو رہا ہے۔ ہر شعبہ میں نظرانداز کیا جارہا ہے۔ اسی پر خاموشی احتیار کرنا قوم کو دھوکہ دینا اور اندھیرے میں رکھنے کے مترادف ہے۔