کے سی آر کی کاماریڈی ، سدی پیٹ یا دوباک پر نظر

,

   

Ferty9 Clinic

اپوزیشن کو ٹارگٹ کرنے والے شبیر کو ہرانا مقصد
حیدرآباد: 19 جولائی (سیاست نیوز) تلنگانہ اسمبلی انتخابات چیف منسٹر کے سی آر کے لیے کئی اعتبار سے چیلنج بن چکے ہیں۔ تیسری مرتبہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے کے سی آر نے امیدواروں کے انتخاب میں نہ صرف محتاط رویہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو دوسری طرف خود اپنے لیے کسی محفوظ اسمبلی حلقہ کی تلاش میں ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ گجویل اسمبلی حلقہ میں ترقیاتی و فلاحی کاموں کے باوجود حالیہ سروے میں عوامی ناراضگی کا علم ہوا جس پر کے سی آر نے 3 اسمبلی حلقہ جات کو متبادل کے طور پر اختیار کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے ان اسمبلی حلقہ جات کے بارے میں رپورٹ طلب کی ہے۔ کاماریڈی، دوباک اور سدی پیٹ اسمبلی حلقہ جات کے بارے میں چیف منسٹر نے رپورٹ طلب کی ہے تاکہ ان کے مقابلہ کی صورت میں اطراف کے اسمبلی حلقہ جات میں بی آر ایس کو فائدہ پہنچے۔ ذرائع کے مطابق کے سی آر نے مذکورہ تینوں اسمبلی حلقہ جات کے پارٹی قائدین سے علیحدہ علیحدہ مشاورت کرتے ہوئے پارٹی موقف کا جائزہ لیا۔ گجویل کے علاوہ سدی پیٹ اور دوباک سے مقابلہ کے سی آر کے لیے اگرچہ آسان رہے گا لیکن کاماریڈی کے بارے میں چیف منسٹر کا غور کسی حکمت عملی کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ تلنگانہ میں مسلمانوں کی تائید حاصل کرنے کے لیے کے سی آر اپنی حلیف جماعت مجلس پر انحصار کئے ہوئے ہیں لیکن مجلس کے بدلتے موقف اور کرناٹک میں کانگریس کی کامیابی کے بعد مسلمانوں میں کانگریس سے بڑھتی ہمدردی نے کے سی آر کو نئی حکمت عملی پر مجبور کردیا ہے۔ چیف منسٹر کے قریبی ذرائع کا ماننا ہے کہ کانگریس پارٹی میں واحد مسلم چہرہ سابق وزیر محمد علی شبیر ہیں جو نہ صرف اپنے ضلع میں بلکہ ریاست کے تمام اضلاع میں مسلمانوں کے نمائندے کی حیثیت سے اپنی شناخت رکھتے ہیں۔ وائی ایس راج شیکھر ریڈی دور حکومت میں مسلمانوں کو 4 فیصد تحفظات کی فراہمی میں محمد علی شبیر کا اہم رول رہا۔ لہٰذا چیف منسٹر کے قریبی ذرائع محمد علی شبیر کو بی آر ایس میں شمولیت کی دعوت دے رہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ محمد علی شبیر پر بی آر ایس میں شمولیت کے لیے دبائو بنانے کی حکمت عملی کے تحت چیف منسٹر نے کاماریڈی اسمبلی حلقہ سے امکانی مقابلہ کا اشارہ دیا ہے۔ محمد علی شبیر جو کانگریس سے سیاسی کیریئر کا آغاز کرتے ہوئے 2004ء سے 2014ء تک کانگریس دور حکومت میں چیف منسٹرس کے ساتھ بہتر روابط کے ذریعہ پارٹی کے سرکردہ قائدین میں شامل ہوچکے ہیں، انہوں نے بی آر ایس کی جانب سے پیشکش کو مسترد کردیا ہے۔ محمد علی شبیر کے حامیوں کا ماننا ہے کہ چیف منسٹر کو ایک مسلم قائد بھی برداشت نہیں ہورہا ہے اور وہ تلنگانہ کے مسلمانوں کو مسلم قیادت سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔ محمد علی شبیر نے چیف منسٹر کی جانب سے کاماریڈی سے مقابلہ کی اطلاعات کا خیرمقدم کیا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ کاماریڈی کے عوام کے سی آر کو شکست دیتے ہوئے تاریخ رقم کریں گے اور انہیں بھی چیف منسٹر کو ہرانے کا اعزاز حاصل ہوگا۔ 2014ء میں تلنگانہ کی تشکیل کے بعد سے کے سی آر گجویل اسمبلی حلقہ سے مقابلہ کررہے ہیں۔ سابق میں چیف منسٹرس این چندرا بابو نائیڈو، وائی ایس راج شیکھر ریڈی اور وائی ایس جگن موہن ریڈی نے مخصوص حلقہ جات کو اپنے لیے منتخب کیا تھا جبکہ این ٹی راما رائو، ہندوپور، گوڑی واڑہ، تروپتی، نلگنڈہ اور ٹیکلی سے مقابلہ کرچکے ہیں۔ انہیں محبوب نگر کے کلواکرتی اسمبلی حلقہ میں کانگریس کے چترنجن داس سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ٹی آر ایس قائدین کو یقین ہے کہ کاماریڈی سے مقابلہ کی صورت میں جنوبی تلنگانہ کے اضلاع میں بی آر ایس کا موقف مستحکم ہوگا۔ عادل آباد، میدک، کریم نگر اور نظام آباد میں پارٹی کا مظاہرہ بہتر ہوگا۔ واضح رہے کہ 2018ء اسمبلی انتخابات میں کاماریڈی سے محمد علی شبیر کو محض 4557 ووٹ سے شکست ہوئی تھی اور اس مرتبہ حلقہ میں کانگریس کی لہر دیکھی جارہی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ موجودہ رکن اسمبلی گمپا گووردھن کے خلاف سروے رپورٹ کے بعد کے سی آر نے حکمت عملی کے تحت 3 نئے اسمبلی حلقہ جات سے مقابلہ کا شوشہ چھوڑ کر سیاسی حلقوں میں ایک نئی بحث چھیڑدی ہے۔ ر