آر ٹی سی کی ہڑتال ختم 7 یونین بازی کا خاتمہ 7 کرایہ سفر میں اضافہ
محمد نعیم وجاہت
آر ٹی سی کی 54 روزہ ہڑتال کا خاتمہ ہوگیا ہے جہاں 48 ہزار ملازمین کو راحت ملی ہے وہیں تلنگانہ کے 4 کروڑ عوام کو زحمت دی گئی ہے ۔ چیف منسٹر کے سی آر نے ایک تیر سے کئی شکار کئے ہیں ۔ اچھی بات یہ رہی کہ چیف مسٹر نے غیرمشروط طریقے سے تمام ہڑتالی ملازمین کو ڈیوٹی سے رجوع ہونے کی اجازت دیتے ہوئے پریشان حال 48 ہزار ملازمین اور ان کے ارکان خاندان کادل جیت لیا ہے وہیں یونین کے قائدین کے خلاف ملازمین میں برہمی پیدا کردی ہے ۔ ساتھ ہی ملازمین تنظیموں اور ان کی سرگرمیوں کو کچلتے ہوئے یونین قائدین کوکٹھرے میں کھڑا کردیا ہے ۔ اس کے علاوہ ہڑتال کی آڑ میں خاموشی سے فی کیلومیٹر 20 پیسے کرائے میں اضافہ کرنے کا اعلان کردیاہے ۔ اسکے علاوہ ہڑتال کے دوران جو ملازمین فوت ہوئے ہیں ان کے ارکان خاندان کو آر ٹی سی یا حکومت کے دوسرے محکمہ میں ملازمت دینے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ خسارے میں چلنے والی آر ٹی سی کو حکومت کی جانب سے 100 کروڑ روپئے دینے کا اعلان کیا ہے ۔ آئندہ مستقبل میں کبھی یونین قائدین سے رابطہ نہ کرنے ان کے بجائے ’’ورکس ویلفیر کونسل ‘‘ تشکیل دینے کا بھی فیصلہ کیا ہے ۔
تلنگانہ تحریک کو کامیاب بنانے میں چانکیہ کا رول ادا کرنے والے کے سی آر نے اپنے کھاتے میں ایک اور کامیابی درج کی ہے ۔ آر ٹی سی ملازمین کی 54 روزہ ہڑتال تاریخ میں یقینا یاد رکھی جائیگی مگر آر ٹی سی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایمپلائیز کی ہڑتال بغیر مطالبات کو منوائے ہی ختم ہوئی ہے یہ بھی ایک حقیقت ہے ۔ ایمپلائیز کا اہم مطالبہ آر ٹی سی کو حکومت میں ضم کرنے کا تھا اس کے علاوہ مزید 25 دوسرے مطالبات بھی تھے ۔ مگر پہلی مرتبہ ایمپلائیز مطالبات کی قبولی کے بغیر ڈیوٹی سے رجوع ہوئے ہیں یہ کے سی آر کا کارنامہ ہی کہا جاسکتا ہے ۔ ایمپلائیز نے اپنے مطالبات کی یکسوئی کیلئے 54 دن تک ہڑتال کیا جس پر حکومت نے بے رحمانہ خاموشی اختیار کی شاید اس لئے کہتے ہیں کہ حالات ، زمانہ ، دور کشیدگی کا شکار ہے ۔ آج کے مقابلہ میں کل حالات مزید بگڑسکتے ہیں اور ان آنکھوں کو شاید مزید کئی ہولناکیاں بھی دیکھنے کو ملیں گی ۔ یہ وہ زمانہ ہے کہ آنکھوں کے آنسو خشک ہوچکے ہیں اور دل درد سے پھٹ بھی جارہے تو کوئی رحم کرنے والا نہیں ہے ۔ نہ ہی انصاف کی اُمید ہے اور نا ہی کوئی افسوس کرنے والا ہے ۔ بلکہ موت کے اس کھیل کو المناک سانحہ کی حیثیت سے دیکھ کر لطف اندواز ہوتے ہیں ۔ ضمیر کو گروی رکھنا اور غیرضروری تعریف کے پل باندھنا عام بات ہوگئی ہے ۔ آخر یہ کیسا دور ہے ؟ سماج کے تمام شعبہ جات پل پل دگرگوں ہوتے جارہے ہیں ہم وہی ہیں جو پانچ سال پہلے تھے۔ ہم سب نے تلنگانہ کی تحریک میں شانہ بہ شانہ کام کرتے ہوئے علحدہ تلنگانہ ریاست کا پرچم لہرایا تھا ۔ اس تحریک کی قیادت کے سی آر نے کی تھی جب سب کچھ کے سی آر کی نظر میں ٹھیک ٹھاک تھا بلکہ کے سی آر ہڑتالی ملازمین کی پیٹھ تھپ تھپارہے تھے ۔ کئی جانی قربانیوں کے بعد علحدہ تلنگانہ ریاست حاصل ہوئی تھی اور سب یہ محسوس کررہے تھے کہ کے سی آر کی قیادت میں تلنگانہ سنہرے تلنگانہ میں تبدیل ہوجائیگا مگر یہ یاد رکھنے کی بات ہے کہ سیاسی قائدین اپنی باتوں اور وعدوں پر ہمیشہ کھرا نہیں اُترتے ۔ اقتدار حاصل ہوتے ہیں تلنگانہ کی تحریک کو ہمالیہ کی بلندوں تک پہنچانے والی تلنگانہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی میں ہی پھوٹ پڑگئی ۔ یہ مثال مشہور ہے کہ تاج محل تعمیر کرنے والے کے ہاتھ کاٹ دیئے گئے تھے اس طرح تلنگانہ ریاست کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے والی جے اے سی کو بھی ختم کردیا گیا ہے ۔ تحریک کے روح رواں پروفیسر کودنڈا رام کے خلاف محاذ تیار کیا گیا ، اقتدار کے گلیاروں سے انھیں دور رکھا گیا ۔ تحریک میں بڑھ چڑھ کر رول ادا کرنے والے سرکاری ملازمین یونین کے قائدین کو سرکاری اور جمہوری عہدے دیئے گئے انھیں ایوانوں کیلئے منتخب کرتے ہوئے جے اے سی کو بے اثر کردیا ۔ سوال پوچھنے کی صلاحیت رکھنے والے قائدین کو ہی جوابدہی کی ذمہ داری سونپی گئی ۔ پہلے تو تلنگانہ تحریک میں تمام سیاسی جماعتوں کو شامل ہونے کیلئے مجبور کیاگیا۔ تلنگانہ کی تائید نہ کرنے والے قائدین پر مخالف تلنگانہ کا ٹھپہ لگایا گیا ۔ علحدہ تلنگانہ ریاست تشکیل دینے پر ٹی آر ایس کو کانگریس میں ضم کرنے اور تلنگانہ کا پہلا چیف منسٹر دلت قائد کو بنانے کا وعدہ کیا گیا۔ جب تلنگانہ ریاست تشکیل پائی تو سب سے پہلے ریاست سے اپوزیشن کا صفایا کردیا گیا ۔ دوسری جماعتوں سے کامیاب ہونے والے قائدین اور اہم عہدوں پر فائز رہنے والی جماعتوں کے قائدین کو ٹی آر ایس میں شامل کرلیا تاکہ ’’نہ رہے بانس نہ بجیگی بانسری‘‘ اپوزیشن کو خالی کرنے کی چکر میں مخالف تلنگانہ قائدین کو بھی شامل کرلیا گیا۔ انھیں وزارت کے علاوہ مختلف کارپوریشنس کی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں جب یقین ہوگیا کہ اپوزیشن بے بس مجبور اور لاچار ہوگئی تو کے سی آرکی نظر ملازمین کی یونین پر جاکر رُکی کیونکہ انھیں ان کی طاقت کابخوبی اندازہ ہے۔ تلنگانہ تحریک میں سرکاری ملازمین یونین کا رول ناقابل فراموش ہے ۔ پہلے جے اے سی ختم اس کے بعد اپوزیشن بے یار و مددگار اسکے بعد یونین نشانے پر تھی، آر ٹی سی ہڑتال کے بعد اب یونینوں کی بھی اہمیت ختم ہوگئی ۔ ایک ایک کرکے کے سی آر نے تلنگانہ میں تمام طاقتوں کو ختم کردیا یا ان کی اہمیت گھٹادی ۔
چیف منسٹر تلنگانہ نے آر ٹی سی ایمپلائیز کو دو مرتبہ ڈیوٹی سے رجوع ہونے کی ہدایت دی مگر ہڑتالی ملازمین اپنے مطالبات پر اٹل تھے ۔ چیف منسٹر نے ہڑتالی ملازمین سے بات چیت کرنے سے انکار کردیا اور عارضی ملازمین کی خدمات سے بسیں چلائی۔ یہ الگ بات ہے کہ آر ٹی سی کو روزانہ 11 کروڑ روپئے کا نقصان برداشت کرنا پڑا ۔ چیف منسٹر نے آر ٹی سی کے نقصانات کو تو برداشت کیا مگر ہڑتالی ملازمین کے مطالبات کو قبول نہیں کیا ۔ہڑتال کے دوران دو درجن سے زائد ایمپلائیز فوت ہوگئے ۔تنخواہیں نہ ملنے سے ملازمین کے گھر کا بجٹ بگڑگیا کیونکہ بچوں کے تعلیمی اخراجات اور گھر کے افراد کو طبی امداد کے علاوہ گھر کے مہینے بھر کا خرچ برداشت کرنا بہت مشکل ہوگیا تھا اتنے دن تک ہڑتال کرنے والی جوائنٹ ایکشن کمیٹی حکومت پر دباؤ بڑھانے اور مطالبات کو منوانے میں بھی ناکام ہوگئی ۔ عدالت نے دیڑھ ماہ تک حکومت کے خلاف ریمارکس کرتے ہوئے ہڑتالی ملازمین کو اُمید میں رکھا تھا تاہم بالاخر مسئلہ کو لیبر کورٹ سے رجوع کردیا ۔ اپوزیشن جماعتوں نے بھی ہڑتال سے اظہاریگانگت کیا تھا اس کا بھی حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑتا سچ کہا جائے تو چیف منسٹر نے بھی اُنھیں کوئی اہمیت نہیں دی ، عوام نے بھی اس پر کوئی ردعمل کا اظہار نہیں کیا ۔ ایک وہ بھی زمانہ تھا جب آر ٹی سی کرایوں میں معمولی اضافہ بھی ہوتا تھا تو طلبہ سڑکوں پر اُتر آتے تھے اور بڑے پیمانے پر احتجاج ہوا کرتے تھے ۔ 54 دن تک آر ٹی سی ہڑتالی تھی ، عوام نے کوئی ردعمل کااظہار نہیں کیا ۔اس کا بھی حکومت نے نوٹ لیا ۔ یہ سب کیا ہورہا ہے ، سونچ سے باہر ہے۔ اگر عام دنوں میں آر ٹی سی کے کرایوں میں اضافہ کیا جاتا تو عوام اور اپوزیشن جماعتیں زبردست ردعمل کا اظہار کرتی لیکن کے سی آر نے ہڑتال کے دوران آر ٹی سی کرایوں میں فی کیلومیٹر 20 پیسے کا اضافہ کرنے کا اعلان کردیا۔ حکومت کے اس فیصلے سے آر ٹی سی کو 750 کروڑ روپئے آمدنی ہونے کا امکان ہے ۔ چیف منسٹر نے ہڑتالی ملازمین کو ڈیوٹی سے رجوع ہونے کا اعلان کیا تو سب نے آر ٹی سی کرایوں میں اضافہ کو فراموش کردیا ۔ چیف منسٹر کا یہ ماسٹر اسٹروک ہے اپوزیشن ۔ یونین سب کے سب تماشائی رہ گئے ۔ یہی نہیں ہڑتالی ملازمین کی ہمدردی حاصل کرنے کیلئے متوفی ملازمین کے ارکان خاندان کو ملازمتیں دینے کا بھی اعلان کردیا۔ اگر چیف منسٹر آر ٹی سی کو بچانے کیلئے سنجیدہ ہے تو ڈیزل پر جو ٹیکس وصول کیا جارہا ہے فوری اس سے دستبرداری اختیار کریں جس سے نقصان میں چلنے والی آر ٹی سی فائدے میں پہونچ جائے گی ۔ غور کرنے والی بات یہ بھی ہے کہ کے سی آر نے آر ٹی سی کو خانگیانے اور ایمپلائیز کے وی آر ایس کے مسئلہ کو بھی نظرانداز نہیں کیا ہے بلکہ یہ کہنا ہے کہ اب وہ آئندہ سے یونین قائدین سے بات چیت نہیں کریں گے کیونکہ یونین کے قائدین نے ایمپلائیز کو گمراہ کرتے ہوئے انھیں ہڑتال کرنے کیلئے مجبور کیا ہے ۔ وہ اب ورکس ویلفیر کونسل کا قیام عمل میں لائیں گے ہر ڈپو سے تین تا 5 ایمپلائیز کو اس میں شامل کرتے ہوئے اس کی نگرانی کیلئے ایک وزیر کو مقرر کریں گے۔اس طرح کا فیصلہ کرتے ہوئے چیف منسٹر نے یونینوں کیلئے بھی اچھے عزائم نہ رکھنے کا اشارہ دیا ہے ۔ آر ٹی سی کو خسارے سے بچانے والے 12 ہزار ایمپلائیز کو وی آر ایس رضاکارانہ طورپر سبکدوش کرنے کے ایک منصوبہ پر بھی غور کیا جارہا ہے ۔ ساتھ ہی آر ٹی سی کے روٹس کو خانگیانے کی تلنگانہ ہائیکورٹ نے بھی منظوری دیدی ہے ۔ چیف منسٹر نے اعلان کیا کہ اگر وہ آر ٹی سی کو خانگیا رہے ہیں تو بھی اس کا پرمٹ دولتمندوں یا کارپوریٹ اداروں کو نہیں دیں گے بلکہ 4 تا 5 آر ٹی سی ملازمین کو ایک بس دینے پر غور کریں گے ۔ آر ٹی سی میں وہ سب کچھ ہورہا ہے جو چیف منسٹر چاہتے تھے ۔ حالات اس طرح بن گئے ہیں کہ کوئی چاہتے ہوئے بھی اس کی مخالفت نہیں کرپارہے ہیں ۔
چیف منسٹر کے سی آر نے اس معاملہ میں مرکز کو بھی نہیں چھوڑا ہے۔ مرکزی وزیر ٹرانسپورٹ نتن گڈکری نے تلنگانہ آر ٹی سی میں مرکز کا 31 فیصد حصہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا تھا مرکز کی منظوری کے بغیر آر ٹی سی کو نہ خانگیا جاسکتا ہے اور نہ ہی حکومت میں ضم کیا جاسکتا ہے۔ چیف منسٹر نے بالواسطہ طورپر اس کا سخت جواب دیتے ہوئے کہا کہ 1950 ء میں 10 روپئے دیتے ہوئے حصہ داری حاصل کی گئی تھی اس کے بعد سے مرکز نے ایک روپیہ بھی نہیں دیا ۔ اس اعتبار سے مرکز تلنگانہ کو 22000 کروڑ روپئے باقی ہے وہ بہت جلد دہلی کا دورہ کریں گے اور ان بقایا جات کی ادائیگی کیلئے مرکز سے نمائندگی کریں گے ۔مرکز کی جانب سے مثبت ردعمل حاصل نہ ہونے کی صورت میں حکومت عدلیہ سے رجوع ہونے سے بھی گریز نہیں کرے گی ۔
