کے لکشمن ، ٹی ونود کمار اور اے ابھیشیک ریڈی کے بحیثیت ججس مثالی تقررات

   

رماکانت ریڈی ،سینئر ایڈوکیٹ
گزشتہ کے مضمون میں ہم نے آپ کو بتایا تھا کہ ایک انتہائی اہمیت کا حامل قدم اٹھاتے ہوئے مرکزی حکومت نے 24 اگست 2019ء کو احکامات جاری کئے ہیں کہ ٹی ونود کمار، انی ریڈی ابھیشیک ریڈی اور کے لکشمن ایڈوکیٹس کو تلنگانہ ہائیکورٹ کے ججس مقرر کیا جائے چنانچہ مرکزی وزارت قانون و انصاف نے اس ضمن میں اعلامیہ جاری کیا جس میں بتایا گیا کہ صدرجمہوریہ نے ان وکلاء کی بحیثیت تلنگانہ ہائیکورٹ ججس تقررات کو منظوری دی ہے اور سپریم کورٹ کالیجم نے بار کوٹہ کے تحت مذکورہ وکلاء کے بحیثیت ججس تقررات کی سفارش کی ہے اور اس سفارش و تجویز کو صدرجمہوریہ کی منظوری کی خاطر مرکزی حکومت کیلئے روانہ کردیا۔ ہم نے آپ کو بتایا تھا کہ یہ تقررات معزز ہائیکورٹ اور معزز سپریم کورٹ کالیجم کے بہتر تقررات ہوسکتے ہیں اور جسٹس ونود کمار، جسٹس لکشمن اور جسٹس ابھیشیک ریڈی کے حیدرآباد میں تلنگانہ ہائیکورٹ ججس کی حیثیت سے تقررات کے نتیجہ میں کالیجم سسٹم نے وکلاء برادری اور عوام کا ایقان مزید پختہ ہوا ہے۔ ہم نے ان ججس کے بارے میں بات کرتے ہوئے بعض مقدمات کے حوالے بھی دیئے ہیں۔ اب آگے بڑھتے ہیں۔ ہم آپ کو عزت مآب جسٹس ونود کمار اور ان کے قابل ذکر فیصلوں کے بارے میں مزید بتانا چاہتے ہیں۔ مثال کے طور پر کے شیلندر موسس اور دیگر بمقابلہ ریاست تلنگانہ مقدمہ سے انہوں نے جس انداز میں نمٹا ، وہ ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو ظاہر کرتا ہے۔ اس مقدمہ میں جسٹس ونود کمار نے خدمات، خدمات کے حصول کے ساتھ ساتھ عارضی خدمات اور مستقل خدمات، ان کی شرائط، ان کے مقاصد کے بارے میں غیرمعمولی انداز میں فیصلہ سنایا اور ان کی بہتر انداز میں تشریح بھی کی۔ انہوں نے اپنے فیصلے میں یہ بھی بتایا کہ عارضی اور مستقل خدمات کے ساتھ ساتھ ہنگامی طور پر حاصل کردہ خدمات میں کیا فرق ہوتا ہے اور تینوں معاملات میں حکام کو پروموشن یا ترقی کی صورت میں کس طرح اقدامات کرنے چاہئیں۔ انہوں نے اپنے فیصلے میں یہ بھی بتایا کہ عبوری تقرر؍ ترقی کی اصطلاح کیا معنی رکھتی ہے اور کیسے کسی عہدے پر مستقل ملازم کے آنے تک عارضی تقرر کیا جاسکتا ہے۔ دراصل جسٹس ونود کمار فاریسٹ ونگ آفیسرس کی ترقی کے بارے میں مقدمہ کی سماعت کررہے تھے۔ اسی طرح جسٹس ٹی ونود کمار نے جی بالاسرسوتی و دیگر بمقابلہ یونین آف انڈیا و دیگر مقدمے کے حوالے سے بھی بہترین فیصلہ دیا ہے۔ اس مقدمہ میں دستوری ہند کی دفعہ 220 کے بارے میں بات کی گئی تھی اور یہ نکتہ اٹھایا گیا کہ ہائیکورٹ خود کو درخواست گزار کی جانب سے اپنے دعوے ثابت کرنے کیلئے ایک خانگی تحقیقات کنندہ کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ اسی طرح رامکی انفراسٹرکچر لمیٹیڈ بمقابلہ ریاست تلنگانہ کے مقدمہ میں بھی جسٹس ونود کمار نے زبردست فیصلہ لیا۔ اس مقدمہ میں یہ مسئلہ درپیش آیا کہ آیا ہائیکورٹ دستور کی دفعہ 226 کے تحت اسے حاصل اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے درخواست گزار کی شکایت کی بنیاد پر ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔ جسٹس ونود کمار نے اس سلسلے میں سدھیر بھاسکر راؤ تومبے بمقابلہ ہیمنت یشونت ڈھاگے و دیگر کے مقدمہ کا حوالہ دیتے ہوئے یہ کہا کہ اگر ایک شخص کی یہ شکایت ہے کہ پولیس اس کی شکایت پر ایف آئی آر درج نہیں کررہی ہے یا پھر اس کی ایف آئی آر درج کرلی گئی ہے، اس کے باوجود مناسب تحقیقات نہیں کی جارہی ہے تو پھر اس کا علاج یہ ہے کہ شکایت کنندہ دستور کی دفعہ 226 کے تحت ہائیکورٹ سے رجوع نہ ہوں، بلکہ سی آر پی سی کی دفعہ 156(3) کے تحت متعلقہ مجسٹریٹ سے رجوع ہو۔ اگر اس قسم کی درخواست جو سی آر پی سی کی دفعہ 156(3) کے تحت پیش کی جاتی ہے اور مجسٹریٹ بادی النظر میں مطمئن ہوتا ہے تو پھر وہ یعنی مجسٹریٹ ایف آئی آر درج کرنے کی ہدایت دے سکتا ہے اور اگر ایف آئی آر پہلے سے ہی درج کی جاچکی ہے، تو مجسٹریٹ اس معاملے کی مناسب تحقیقات کا حکم دے سکتا ہے۔ اگر وہ چاہتا ہے کہ تحقیقاتی آفیسر کو تبدیل کیا جائے تو ایسے میں وہ مناسب تحقیقات کو یقینی بنانے کے لئے تحقیقاتی عہدیدار کی تبدیلی کیلئے سفارش بھی کرسکتا ہے۔ جیسے ہم نے ساکری باسو مقدمہ میں کہا ہے کیونکہ ہم نے اس ملک میں جو کچھ پایا، وہ یہ ہے کہ ہائیکورٹس میں ایف آئی آر کے اندراج سے متعلق رٹ پٹیشن کا انبار ہے۔ اس کے علاوہ ہائیکورٹس میں ایسی درخواستیں بھی کثیر تعدادمیں پڑی ہوئی ہیں ، جس میں مناسب تحقیقات کی التجا کی گئی ہے۔ بہرحال جسٹس ونود کمار نے اس مقدمہ میں بہت دلچسپ اور غیرمعمولی ریمارکس کئے ہیں۔ فون 9849029276 (سلسلہ جاری)