گائے اچھی یا انسان ؟
بابری مسجد پر جسٹس چندر چوڑ کا انکشاف
مودی … یکساں سیول کوڈ پر جلدی میں
رشیدالدین
گائے اچھی یا انسان ؟ یہ سوال یقیناً ہر کسی کو چونکادینے والا ہے۔ ہر ذی شعور کا یہی جواب ہوگا کہ انسان کے مقابلہ جانور کیسے افضل اور اعلیٰ ہوسکتا ہے۔ خالق کائنات نے انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ہے اور دیگر مخلوقات پر اسے فضیلت حاصل ہے ۔ پھر بھی یہ سوال اپنی جگہ برقرار رہے گا کہ انسان اور گائے میں احترام اور تعظیم کے لائق زیادہ کون ہے۔ اگر گائے کو اللہ تعالیٰ قوت گویائی دے تو وہ بھی پکار اٹھے گی کہ انسان مجھ سے زیادہ اعلیٰ و ارفع مقام رکھتا ہے۔ ہندوستان میں گزشتہ 10 برسوں میں نریندر مودی کی حکمرانی نے انسان کے مقابلہ جانور اور وہ بھی گائے اور بیل کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے بلکہ عوام کو مجبور کیا گیا کہ وہ جانوروں کی عزت کریں۔ جہاں تک جانوروں کے ساتھ سلوک کا تعلق ہے، اسلام نے ظالمانہ رویہ کی اجازت نہیں دی ہے ۔ جانور بھلے ہی کوئی ہو ، اس کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دی گئی لیکن جہاں تک برتری اور احترام کا معاملہ ہے ، انسان کی فوقیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ راجستھان کی بی جے پی حکومت نے گائے کو ’’آوارہ‘‘ کہنا جرم قرار دیا ہے اور سڑکوں پر گھومنے والے گائے بیل کو اب ’’آوارہ‘‘ نہیں بلکہ ’’بے بس‘‘ اور ’’بے سہارا‘‘ کہا جائے گا۔ نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر میں سڑکوں پر گھومنے والے جانوروں کو ’’آوارہ مویشی‘‘ کی اصطلاح عام ہے جو آوارہ کے لغوی معنی کے بجائے مفہوم کے انداز میں ہے۔ راجستھان میں گائے اور بیل کے تحفظ کے دعویداروں کو یہ بات پسند نہیں کہ کوئی ان کے پسندیدہ جانور کو آوارہ کہے۔ بھلے ہی لوگوں کے بچوں اور جوانوں کو آوارہ کہا جائے لیکن گائے کو آوارہ کہنا جرم قرار پائے گا ۔ مطلب صاف ہے کہ انسان سے زیادہ اہمیت گائے کی ہے ۔ راجستھان حکومت نے گائے اور دیگر مویشیوں کو آوارہ کہنے پر پابندی عائد کردی ہے۔ لفظ آوارہ کے استعمال پر شائد مویشیوں نے خود اعتراض جتاتے ہوئے عرضی پیش کی ہوگی جس پر فوری احکامات جاری کئے گئے۔ مویشی کو چاہے عزت مآب کہیں یا آوارہ اس سے کیا فرق پڑے گا۔ مویشی کہیں یا جانور دونوں ایک ہی ہیں۔ راجستھان حکومت کے فیصلہ کے بعد انسان کا ذہن یہ سوچنے پر مجبور ہوچکا ہے کہ کاش ہم بھی گائے ہوتے تو شائد حکومت احترام کرتی۔ راجستھان میں مآب لنچنگ اور دیگر تشدد کے واقعات کے ذریعہ انسانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ انسان بالخصوص اقلیتوں پر بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں مظالم انتہا پر ہیں لیکن حکومت کو انسان سے زیادہ گائے اور بیل کی حرمت اور عزت عزیز ہے۔ اقلیتوں کو گاؤ رکھشکوں کے ہاتھوں مسلم نوجوانوں کی ہلاکت پر کوئی افسوس نہیں لیکن گائے کو کوئی آوارہ کہہ دے تو اسے سزا ہوگی جبکہ گاؤ رکھشکوں کو کھلی چھوٹ رہے گی۔ ابھی تو راجستھان سے گائے کے احترام کے قانون کا آغاز ہوا ہے اور آگے چل کر دیگر بی جے پی ریاستوں حتیٰ کہ ملک بھر میں یہ قانون نافذ کیا جاسکتا ہے۔ ملک میں جہد کاروں اور مسلمانوں کے ساتھ انسانی حقوق کی خلاف ورزی عروج پر ہے ۔ عمر خالد کو 4 سال سے جیل میں رکھا گیا جبکہ عدالت میں مقدمہ کی سنوائی ابھی شروع نہیں ہوئی ۔ کسی جرم کے ثابت ہوئے بغیر چار سال جیل میں رہنا اور عدالتوں کا ضمانت کی درخواستوں کی سماعت سے انکار کیا انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے ؟ گجرات فسادات کے سزا یافتہ مجرمین کی سزا معاف کرتے ہوئے آزاد کردیا گیا۔ عصمت ریزی میں عمر قید کی سزا کاٹنے والا گرمیت رام رحیم کو ابھی تک 275 دن پیرول پر جیل سے رہا کیا گیا ۔ عمر قید کی سزا کے دوران 275 دن پیرول پر رہائی سے اندازہ ہوتا ہے کہ گرمیت رام رحیم حکومت کے پاس کیا اہمیت رکھتا ہے ۔ لوٹ مار اور عصمت ریزی کرنے والوں پر حکومت اور قانون مہربان ہے لیکن عمر خالد کی کوئی سنوائی نہیں۔ عمر خالد کا قصور بس اتنا ہے کہ وہ مسلمان ہے ۔ ملک میں جانوروں کو برا بھلا کہنے پر سزا کی گنجائش ہے لیکن مسلمانوں پر ظلم کرنے والوں کی کوئی باز پرس نہیں ہے۔ مسلمان تو جانوروں سے بدتر ہیں جن کو کوئی بھی ، کہیں بھی ظلم اور تشدد کا نشانہ بناسکتا ہے۔ گائے اور دیگر مویشیوں کا یقیناً احترام کیا جائے ، اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہوسکتا لیکن انسانی حقوق کا بھی تحفظ ہونا چاہئے ۔ ملک میں شائد ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو جس دن مسلمانوں پر ظلم کا واقعہ پیش نہ آئے۔ روزانہ کسی نہ کسی علاقہ سے نفرت اور تشدد کے واقعہ کی اطلاع ملتی ہے ۔ صورتحال یہاں تک پہنچ گئی کہ ہندو اکثریتی آبادی میں کوئی مسلمان اجنبی نظر آجائے تو اس پر اعتراض کیا جارہا ہے ۔ جانوروں سے محبت اور مخصوص مذہب کے ماننے والے انسانوں سے نفرت کرنے والے بھول رہے ہیں کہ ہندوستان بیف ایکسپورٹ میں دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ مودی حکومت کے دوران بیف ایکسپورٹ میں اضافہ ہوا ۔ گائے اور بیل کو آوارہ کہنا منع ہے لیکن انہیں ذبح کر کے دنیا بھر میں گوشت کی برآمدات کی حوصلہ افزائی خود حکومت کر رہی ہے۔ گوشت کے یہ کاروباری زیادہ تر غیر مسلم ہیں جو ایکسپورٹ کے ذریعہ بھاری آمدنی حاصل کر رہے ہیں ۔ مسلمان پر بیف کے شبہ میں ماب لنچنگ کی جاتی ہے لیکن سینکڑوں ، ہزاروں مویشیوں کو کاٹ کر گوشت دنیا بھر میں بھیجنے والوں پر مہربانی اس لئے کہ ان کا حکومت سے قریبی ربط ہے اور برسر اقتدار پارٹی کو بھاری فنڈس حاصل ہوتے ہیں۔ مویشیوں کو آوارہ کہنے سے روکنے والے ہوش کے ناخن لیں اور انسان اور انسانی حقوق کا احترام کریں تو بہتر ہوگا۔
چیف جسٹس آف انڈیا کے عہدہ سے جاریہ ماہ سبکدوش ہونے والے جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے بابری مسجد مقدمہ کے فیصلہ کے بارے میں ایک چونکادینے والا انکشاف کرتے ہوئے یہ ثابت کردیا کہ سپریم کورٹ نے آستھا کی بنیاد پر بابری مسجد کی اراضی رام مندر کے لئے حوالے کردی تھی۔ سبکدوشی سے قبل مختلف اخبارات اور ٹی وی چیانلس کو جسٹس چندر چوڑ نے انٹرویو دیا جو بابری مسجد کا فیصلہ سنانے والے پانچ رکنی بنچ میں شامل تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ بابری مسجد فیصلہ سے قبل انہوں نے بھگوان کی رہنمائی حاصل کی اور اسی کے مطابق فیصلہ سنایا گیا ۔ عدلیہ چاہے تحت کی ہو یا سپریم کورٹ فیصلوں کا انحصار گواہوں اور ثبوت کی بنیاد پر ہونا چاہئے لیکن ایک حساس متنازعہ مسئلہ پر عدالت نے اپنی مذہبی آستھا کو مقدم رکھا ہے ۔ ویسے بھی پانچ رکنی بنچ نے اپنے فیصلہ میں اعتراف کیا کہ مقدمہ میں مسلم فریق کے دلائل اور شواہد مستحکم ہیں۔ بابری مسجد کسی مندر کو منہدم کر کے تعمیر نہیں کی گئی اور مسجد میں راتوں رات غیر قانونی طور پر مورتیاں رکھی گئیں ۔ جسٹس چندر چوڑ کے بیان کے بعد سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ سبکدوشی سے قبل وزیراعظم نریندر مودی کا جسٹس چندر چوڑ کی قیامگاہ پر پوجا میں حصہ لینا اور پھر بابری مسجد مقدمہ کے بارے میں ان کا بیان اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ سبکدوشی کے بعد ڈی وائی چندر چوڑ کو کوئی اہم عہدہ حاصل ہوگا۔ اس وقت کے چیف جسٹس رنجن گوگوئی کو سبکدوشی کے بعد راجیہ سبھا کی رکنیت دی گئی تھی جبکہ جسٹس ایس ایس بوبڈے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بنائے گئے۔ ان کے بعد جسٹس چندر چوڑ نے چیف جسٹس کی ذمہ داری سنبھالی۔ جسٹس اشوک بھوشن کو ریٹائرمنٹ کے بعد نیشنل کمپنی لاء اپیلیٹ ٹریبونل کا صدرنشین مقرر کیا گیا جبکہ جسٹس عبدالنذیر کو آندھراپردیش کا گورنر بنایا گیا۔ عوام کو انتظار ہے کہ جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کو کیا نئی ذمہ داری دی جائے گی۔ اسی دوران وزیراعظم نریندر مودی نے دیپاولی کا تہوار فوجی جوانوں کے ساتھ مناتے ہوئے چین کے ساتھ سرحدی تنازعہ کی ناکامی کو کامیابی کے طور پر پیش کیا ہے ۔ ایک ہی دن میں آنجہانی اندرا گاندھی کی برسی اور سردار پٹیل کی یوم پیدائش تھی لیکن نریندر مودی نے صرف سردار پٹیل کو یاد کیا۔ اندرا گاندھی ہو یا سردار پٹیل قومی قائدین ہیں اور دونوں کا تعلق کانگریس پارٹی سے ہے لیکن صرف سردار پٹیل کو خراج پیش کرنا اور ملک کیلئے جان نچھاور کرنے والی خاتون آہن اندرا گاندھی کو فراموش کرنا باعث حیرت ہے۔ سردار پٹیل کو یاد کرتے ہوئے نریندر مودی نے ون نیشن۔ون الیکشن اور کامن سیول کوڈ پر جلد عمل آوری کا اعلان کیا ۔ پارلیمنٹ کے ساتھ اسمبلیوں کے انتخابات اور ملک کے لئے ایک قانون کے تحت یکساں سیول کوڈ کے نفاذ میں نریندر مودی کو کافی عجلت ہے حالانکہ لوک سبھا میں بی جے پی اکثریت سے محروم ہے۔ نریندر مودی ہر ایونٹ کو فرقہ وارانہ رنگ دینے میں مہارت رکھتے ہیں اور انہوں نے سردار پٹیل کو ہندوتوا کی علامت کے طور پر پیش کیا ہے ۔ طبعی عمر کو پہنچنے کے باوجود مودی کی ذ ہنیت تبدیل نہیں ہوئی حالانکہ آر ایس ایس نے مودی کے متبادل کی تلاش شروع کردی ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے ؎
شیر آجائے مقابل میں کوئی بات نہیں
گائے پیچھے سے گزر جائے تو ڈر لگتا ہے