گارگی کالج میں لڑکیوں سے جنسی بدسلوکی

   

رویش کمار
دہلی پولیس نے جے این یو کیس میں اپنا کام غیرجانبداری سے کیا ہوتا تو ایک اور ہجوم اتنی جلد گارگی کالج کے کیمپس میں ہلہ نہیں کیا ہوتا۔ سینکڑوں نوجوان گرلز کالج میں گھس پڑے۔ ایسے غنڈہ عناصر کی اکثر مناسب الفاظ میں تشریح نہیں ہوپاتی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ انگریزی میں groping کی اصطلاح سے وہ زیادہ بدنام نہیں ہوں گے لیکن ہم اسے ہندی میں کہیں گے کہ غنڈہ عناصر نے گارگی کالج میں اپنی اخلاق سوز حرکتوں کے ذریعے لڑکیوں کی چھاتیوں کو نشانہ بنایا۔ جنسی تشدد کے تعلق سے اکثر شرمندگی کے باعث شکایت نہیں کی جاتی۔ اس لئے خاطیوں کا ہجوم بچ نکلتا ہے۔ دارالحکومت میں اخلاقیات کا یہ حال ہے جبکہ یہ میٹروسٹی انڈیا کو ورلڈ گرو بنانے کا خواہشمند ہے۔
شام چار بجے جبکہ گارگی کالج کی گیٹ بند کی جانے والی تھی، بڑی تعداد میں باہر کے اسٹوڈنٹس اور دیگر نوجوان گھسنے لگے۔ آپ ویڈیو میں دیکھ سکتے ہو کہ سکیورٹی پرسونل خاموش تماشائی ہیں۔ دھیرے دھیرے کافی بڑا ہجوم اس میدا ن پر جمع ہوگیا جہاں 6 فبروری کو زوبن نوتیال کا پروگرام جاری تھا۔ گارگی کی ہر لڑکی کو پاس ملا۔ لیکن پاسوں سے کہیں زیادہ تعداد میں ہجوم جمع ہوگیا۔ یہ سچ ہے کہ پرنسپل نے فوری پولیس کو مطلع کیا۔ لڑکیوں نے خود کو بچانے کیلئے انسانی زنجیر بنالی تھی۔ کالج گراؤنڈ سے متصل ڈیئر پارک ہے جہاں سے لوگ کالج کیمپس میں گھسنے لگے۔ کئی لڑکیوں نے بتایا کہ اکثر 25 سال سے زائد عمر والے نوجوان معلوم ہورہے تھے۔ اگلے روز کالج بند تھا، لیکن سوشل میڈیا پر لڑکیوں نے لکھنا شروع کیا کہ اُن کے ساتھ کیا کچھ پیش آیا۔ ہجوم کیمپس میں گھس کر شراب پینے لگا۔ وہ لڑکیوں پر شراپ پھینکنے لگے۔ سگریٹ نوشی کرنے لگے۔ اسٹیج کے قریب گارگی اسٹوڈنٹس کیلئے محفوظ گوشہ بنایا گیا تھا۔ کچھ لڑکیاں جو وہاں جگہ نہیں پاسکیں، انھیں بدمعاشوں نے بہت ستایا۔ بدن کے نازک حصوں کو چھونے اور ضرب لگانے لگے۔ اتنا ہی نہیں آرٹ سوسائٹی نے ایک پوسٹر بنایا تھا جس میں گوری لنکیش، فائے ڈی سوزا، چندرشیکھر آزاد کی ستائش کی گئی۔ دو روز تک پوسٹر برقرار رہا لیکن 6 فبروری کو اسے ہٹاتے ہوئے بتایا گیا کہ لوگوں نے اس تعلق سے شکایت کی ہے۔ وہ کون ہیں، معلوم نہیں؟
دہلی میں آپ سوچوگے کہ ہر طرف میڈیا موجود ہے۔ درحقیقت، میڈیا کہیں نہیں ہے۔ اگر یہ ہوتا تو 6 فبروری کے واقعہ کی 9 یا 10 تاریخ کو اشاعت نہ ہوتی۔ ایک مثبت تبدیلی ہوئی ہے کہ اب وزیر داخلہ امیت شاہ یا دہلی پولیس اس طرح کے واقعات کیلئے ذمہ دار نہیں ہیں۔ ذمہ داری کے ایسے سوالات یو پی اے دور میں شیوراج پاٹل کے ساتھ ختم ہوگئے۔ لوک سبھا میں ایچ آر ڈی منسٹر رمیش پوکھریال نے کہا کہ گارگی کالج میں ایک واقعہ پیش آیا۔ کالج اڈمنسٹریشن سے سخت کارروائی کیلئے کہا گیا ہے۔ مگر اسٹوڈنٹس تو کالج انتظامیہ کو ہی موردِ الزام ٹہرا رہے ہیں کہ اُن کی شکایت پر سنجیدگی نہیں دکھائی گئی۔ پولیس کو بروقت طلب نہیں کیا گیا اور گیٹ پر سکیورٹی مستعد نہیں تھی۔ وزیر موصوف کا یہ ماننا بھی ہے کہ لڑکیوں سے جنسی زیادتی کی گئی ہے۔ لیکن یہ قبول نہیں کیا گیا کہ پرنسپل اور اڈمنسٹریشن کی کوئی غلطی ہے۔ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ چیف منسٹر دہلی اروند کجریوال نے بھی اس واقعہ پر ٹوئٹ کے ذریعے افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ کسی کو بھی بخشا نہ جائے۔ کیا 6 فبروری کے اس واقعہ کو 8 فبروری کو پولنگ کے سبب منظرعام پر آنے سے روکا گیا؟ 6 فبروری کو جب اسٹوڈنٹس پرنسپل پرامیلا کمار سے رجوع ہوئیں، تب پولیس کو فوری طلب کیوں نہ کیا گیا؟ بہرحال دہلی پولیس نے انکوائری کمیٹی بنائی ہے۔ ایڈیشنل اے سی پی ٹیم تحقیقات کرے گی۔
اگلے دوشنبہ کو کالج کی کشادگی کے ساتھ ہی لڑکیوں نے غصہ کا اظہار شروع کیا۔ وہ پوری تیاری کے ساتھ کالج کے برآمدے میں جمع ہوگئیں۔ ’انقلاب‘ کے نعرے لگائے گئے اور کالج اڈمنسٹریشن پر سوال اٹھائے گئے۔ اس دوران پتہ چلا کہ سپریم کورٹ فیصلہ کے باوجود کالج میں کوئی انٹرنل کیمپس کمیٹی نہیں ہے جہاں جنسی تشدد کی شکایات درج کرائی جاسکتی ہیں۔ برہم لڑکیوں نے پرنسپل پرامیلا سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا۔ پرنسپل نے آخرکار ’فیاکٹ فائنڈنگ کمیٹی‘ کی تشکیل کا اعلان کیا جس میں کالج کے تمام 17 کورسیس سے ایک ٹیچر اور ایک اسٹوڈنٹ شامل کئے جائیں گے۔ اسٹوڈنٹس نے جاننا چاہا کہ کالج کتنی رقم سکیورٹی پر خرچ کرتا ہے؟

5 جنوری کو نقاب پوش غنڈوں نے جے این یو ہاسٹلز میں گھس کر توڑپھوڑ کی، لڑکیوں کو مارپیٹ کی، پروفیسروں کو بھی نہیں بخشا۔ آج تک کوئی ایک گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔ ایسا نہیں کہ جے این یو ملک کے طاقتور وزیر داخلہ کی وزارت کے دائرۂ کار میں نہیں ہے۔ پالیٹکس کا شاید احساس ہے کہ جو کچھ وہ وضاحت کردیں، عوام قبول کرلیں اور سوال کو فراموش کردیا جائے گا۔ میرا ماننا ہے کہ نقاب پوش غنڈوں کی گرفتاری کے سوال سے آپ (عوام) کو کچھ فرق نہیں پڑتا۔ جے این یو ہاسٹل میں گھسنا، لڑکیوں اور پروفیسر کو مارپیٹ کر زخمی کرنا آپ تمام کو فکرمند کرنا چاہئے۔ آپ کو سمجھا دیا گیا کہ جے این یو والے لوگ کمیونسٹ ہیں۔ جس کا سر پھوٹا، اس پر ہی غنڈہ ہونے کا الزام ہے!
یہ ’گودی میڈیا‘ کی کامیابی ہے۔ وہ ایسا ماحول بناتا ہے کہ آپ کے سوالات گم ہوجائیں۔ آپ کو یاد ہے ایس آئی ٹی تشکیل دی گئی، 12 جنوری کو پریس کانفرنس منعقد کی گئی، 7 افراد کی شناخت ہونے کی بات ہوئی۔ ایک ماہ گزر چکا۔ ابھی تک جے این یو میں تشدد کے مرتکب غنڈوں کو پکڑا نہیں گیا ہے۔

لڑکیوں سے دست درازی کی قابل گرفت خصلت محض دہلی اور ممبئی میں نہیں ہے۔ وردھا، مہاراشٹرا میں ایک لیکچرر پر پٹرول ڈال کر آگ لگا دی گئی۔ وہ خاتون جانبر نہ ہوسکی۔ ایسے موقع پر شدید غصہ کا اظہار فطری امر ہے۔ لیکن ہم اس ذہنیت سے نہیں لڑتے ہیں جو لیکچرر کی موت کا موجب بنی۔ تشدد کی بیماری سے لڑنا بڑا اہم ہے جو لڑکوں میں مختلف طریقوں سے سرایت کی جارہی ہے۔ کشمیر کے ایک لڑکے کو جئے پور میں اُس کے ساتھی نے ہلاک کردیا۔ 18 سالہ باسط خان جئے پور میں ایک کیٹرر کے ساتھ کام کرتا تھا۔ کسی معمولی بات پر جھگڑے میں 20 سالہ آدتیہ نے باسط کو شدید ضرب لگائی اور وہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ کپواڑہ کے متوطن باسط کے والد اِس دنیا میں نہیں۔ اب ماں اور دو بیٹیاں بے یارو مددگار رہ گئے ہیں۔آدتیہ کے ما ں باپ نے تو اسے قتل کے راستے پر نہیں ڈالا ہوگا۔ آج کی گندی اور فرقہ پرستانہ سیاست کئی نوجوانوں کے ذہن بگاڑ رہی ہے۔
اس کے برعکس مختلف قسم کے نوجوان بھی ہیں۔ ایک ماہ قبل نیشنل لا یونیورسٹی دہلی میں کنٹراکٹ پر کام کرنے والے 55 صفائی کرمچاریوں کو فارغ کردیا گیا۔ قانون کی تعلیم حاصل کرنے والے اسٹوڈنٹس اس معاملے میں کرمچاریوں کے حق کیلئے سامنے آئے۔ انھوں نے کئی پوسٹرس بنائے۔ میدان پر مطالبات لکھے اور ہر روز صفائی کرمچاریوں کے ساتھ دھرنے پر بیٹھ گئے۔ بعض اسٹوڈنٹس چھٹیوں پر اپنے گھر نہیں گئے اور بعض نے اپنی انٹرن شپس چھوڑ دی۔ ان کا بنیادی مطالبہ رہا کہ کرمچاریوں کو دوبارہ نوکری پر رکھا جائے۔ تاہم، انسٹی ٹیوٹ نے نئے ورکرس کو کنٹراکٹ دے دیا۔ بہرحال، یہ آج کے مایوس کن ماحول میں حوصلہ افزاء تبدیلی ہے کہ جواں سال لڑکے اور لڑکیاں دوسروں کے جائز حقوق کیلئے بھی جدوجہد کررہے ہیں۔ایسے اسٹوڈنٹس جب وکلاء اور ججس بنیں گے، کوئی حکومت اُن کے ذہن بدلنے میں کامیاب نہیں ہوپائے گی۔
سپریم کورٹ نے شاہین باغ میں جاری احتجاج کو وہاں سے ہٹانے کیلئے ابھی تک کوئی فیصلہ صادر نہیں کیا۔ بلکہ 17 فبروری کو اس معاملے کی سماعت ہوگی۔ دہلی ہائیکورٹ نے بھی معاملہ سپریم کورٹ میں زیردوراں ہونے کے پیش نظر اپنی طرف سے کوئی فیصلہ نہیں دیا ہے۔
دوسری طرف جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اسٹوڈنٹس کو پارلیمنٹ تک مارچ سے روک دیا گیا۔ پولیس نے ہولی فیملی کے قریب بیریکیڈ لگا دیئے۔ دوسری بار اس طرح روکا گیا۔ اسٹوڈنٹس اور پولیس کے درمیان جھڑپ ہوئی۔ کئی طلبہ زخمی ہوئے، جنھیں ہاسپٹل سے رجوع کرنا پڑا۔ پولیس نے کئی افراد کو حراست میں بھی لیا۔
[email protected]