گانجہ ‘ شراب ‘ منشیات اور قتل و خون کی لعنتیں پرانے شہر میں ہی عام کیوں؟

   

٭ تہذیب و تمدن اور اخلاق و کردار کا شہر آج اضطرابی کیفیت کا شکار
٭ نوجوانوں کی بے راہ روی اور اخلاقی پستی حد درجہ تشویش کا سبب
٭ مذہبی رہنماؤں ‘ سیاسی قائدین اور پولیس کو حرکت میں آنا ضروری
٭ غیر قانونی سرگرمیوں پر متعلقہ پولیس عملہ کے خلاف کارروائی بھی ہو

حیدرآباد 25 جون (سیاست نیوز ) کسی بھی سماج یا معاشرہ کیلئے نوجوان اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ نوجوان قوم کا مستقبل ہوتے ہیں اور وہ اپنے اسلاف کی روایات کو آگے بڑھانے کے ذمہ دار بھی ۔ سماج و معاشرہ میں امن و امان بھی اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور امن و امان کی برقراری میں بھی نوجوانوں کا اہم رول ہوتا ہے ۔ گذشتہ دو ہفتوں سے حیدرآباد اور خاص طور پر پرانے شہر میں پیش آئے واقعات محض ایک دوسرے کو نشانہ بنانے کے متقاضی نہیں ہیں بلکہ سنجیدگی کے ساتھ اس کی وجوہات کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے ۔ ہمیں دیکھنا یہ چاہئے کہ ہمارا معاشرہ کہاں جا رہا ہے ۔ ہمارے نوجوان کہاں جا رہے ہیں۔ ان میں اخلاقی پستی انتہاء کو کیوں پہونچ رہی ہے ۔ کیوں ہمارے نوجوان غیر اسلامی لعنتوں کا شکار ہو کر خود بھی معاشرہ کیلئے شرمندگی کا باعث بن رہے ہیں اور دوسروں کی زندگیوں سے بھی کھلواڑ کرنے لگے ہیں۔ پرانا شہر حیدرآباد ایک تاریخی اہمیت کا حامل شہر ہے ۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ پرانا شہر ہی اصل حیدرآباد ہے ۔ شہر نے حالانکہ بہت توسیع کرلی اور پھیل گیا ہے لیکن حقیقی حیدرآباد پرانا شہر ہی کہلاتا ہے ۔ چارمینار کے چاروں جانب کی آبادیاں حیدرآبادی تہذیب کی علمبردار ہوا کرتی تھیں۔ یہاں تہذیب و تمدن کا بول بالا تھا ۔ اخلاق و کردار کو اہمیت دی جاتی تھی ۔ ایک وقت تھا کہ یہاں نوجوانوں کا ہوٹل میں محض چائے پینا بھی عیب سمجھا جاتا تھا تاہم آج کی صورتحال پر ہمیں غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ ان ہی بستیوں میں پلنے بڑھنے والے نوجوان نشہ کی لعنت کا جس تیزی سے شکار ہوئے ہیں وہ قابل غور اور قابل تشویش ہے ۔ ہم اگر نئے شہر کے اقلیتی آبادی والے علاقوں کا جائزہ لیں تو حالات قدرے الگ دکھائی دیتے ہیں۔ حالانکہ مسلم روایات اور طرز زندگی نئے شہر اور پرانے شہر میں یکساں ہے لیکن پرانے شہر کے ماحول پر جو پراگندگی چھائی ہوئی ہے وہ ہم کو تشویش میں مبتلا کرتی ہے ۔ ہمیں نئے شہر کی مسلم آبادیوں میں چبوترے اس قدر آباد دکھائی نہیں دیتے جس قدر پرانے شہر میں دکھائی دیتے ہیں۔ نئے شہر میں بھی علاقے ایسے ہیں جہاں مسلم غالب آبادی ہے ۔ یوسف گوڑہ ‘ بورا بنڈہ ‘ خیریت آباد ‘ سکندرآباد ‘ صنعت نگر ‘ مشیر آباد ‘ بھوئی گوڑہ اور بھی کئی علاقوں میں میں خاطر خواہ مسلم آبادی موجود ہے ۔ وہاں بھی ہمیں ہوٹلوں اور پان شاپس کی تعداد ضرور دکھائی دیتی ہے ۔ پرانے شہر میں بھی ہوٹلیں اور پان شاپس غیر معمولی تعداد میں موجود ہیں۔ تاہم پرانے شہر کا سنجیدگی سے جائزہ لیں تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ یہاں نشہ کی لعنت کا شکار نوجوان زیادہ ہوگئے ہیں۔ یہ ہمارے اپنے ہی نوجوان ہیں۔ ہم انہیں حالات کے رحم و کرم پر اسی طرح خود لعنت کا شکار رہنے اور دوسروں کیلئے درد سر بننے کیلئے نہیںچھوڑ سکتے ۔ پرانے شہر کے مذہبی ادارے ہوں ‘ مذہبی تنظیمیں ہوں یا پھر سیاسی قائدین ہوں سبھی کو اس معاملے میں اپنی ذمہ داری پوری کرنے کی ضرورت ہے ۔ شراب ‘ گانجہ ‘ ناجائز تعلقات ‘ اخلاقی بے راہ روی ‘ غیر اخلاقی سرگرمیاں ‘ سود کا چلن یہ سب کچھ اسلام میں حرام ہے ۔ ہر گناہ کی شدید سزائیں بھی بتادی گئی ہیںاس کے باوجود ہمارے نوجوان اس لعنت کا شکار ہو رہے ہیں۔ مذہبی رہنماؤں ‘ اسکالرس اور مقررین و اداروں کے ذریعہ نوجوانوں کی اصلاح ہونی چاہئے ۔ نوجوانوں کو غفلت و لاپرواہی کے اندھیرے سے نکالنے کی ضرورت ہے ۔ جو طبقہ اور حلقہ اسلامی تعلیمات اور ان کے احکام سے واقفف نہیں ہے اس کو دین کی تعلیم سے واقف کروانا اور احکام الہی کی پابندی کی جانب توجہ مبذول کروانا مذہبی حلقوں کا فریضہ ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اس جانب اب تک کسی نے توجہ نہیں دی ۔ جمعہ کے خطبات اس میں اہم رول ادا کرسکتے ہیں۔ نوجوانوں کو اس طرح منشیات وغیرہ کا شکار ہو کر اپنی زندگیوں کو ضائع کرنے کی اجازت دینے کی بجائے ان کی اصلاح کرکے اسلام سے قریب لانے کی ضرورت ہے ۔ انہیں معاشرہ کیلئے ایک اچھا اور ذمہ دار شہری بنایا جاسکتا ہے لیکن اس کیلئے بے تکان جدوجہد کی ضرورت ہے ۔ آج نشہ کی لعنت اور قتل و خون اور غارت گری جس حد تک سرائیت کر گئی ہے اس کو دیکھتے ہوئے چل چلاؤ والا انداز کارکرد نہیں ہوسکتا ۔ جہاں مذہبی اور سیاسی ذمہ داروں کو اس معاملہ میں سرگرم رول ادا کرنا چاہئے وہیں پولیس کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ محض بازار بند کروانے پر اکتفاء نہ کرے ۔ نوجوانوں کو گھروں میں رہنے کی تلقین اور انہیں پابند کرنا بھی اس مسئلہ کا حل نہیں ہے ۔ نشہ آور اشیا اور گانجہ وغیرہ کی فروخت کو روکنا بھی پولیس کا اولین فریضہ ہے ۔ گذشتہ دنوں جو قتل کے واقعات پیش آئے ہیں انہوں نے سارے شہر میں بے چینی کی کیفیت پیدا کردی اور اس کیلئے پولیس کو بھی اپنی ذمہ داری کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے ۔ امن کو برقرار رکھنے کے ساتھ غیر قانونی سرگرمیوں کو روکنا بھی پولیس کا فریضہ ہے ۔ پولیس فورس کیلئے بھی ضابطہ ہونا چاہئے ۔ جس پولیس اسٹیشن کے حدود میں گانجہ ‘ غیر قانونی شرابیا منشیات وغیرہ فروخت کی جاتی ہیں ان کے عملہ کو معطل کیا جانا چاہئے ۔ عہدیدار کو جوابدہ بنایا جانا چاہئے کارروائی ہونی چاہئے ۔ قتل و خون کی روک تھام میں بھی مقررہ وقت میں جامع تحقیقات کرکے خاطیوں کو سزائیں دلائی جانی چاہئیں۔ سماجی برائیوںاور لعنتوں کا خاتمہ کرنا بھی پولیس کا فرض ہے اور اب تک اس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے ۔ کم از کم اب اس جانب توجہ کرکے پولیس ہو ‘ مِذہبی رہنما ہوں یا سیاسی قائدین ہوں سبھی کو اس جانب توجہ دینے اور معاشرہ میں بہتری اور نوجوانوں کی اصلاح کی ذمہ داری قبول کرنی چاہئے اور اس کیلئے عملی طور پر حرکت میں آنا ضروری ہے ۔