گاندھی جی کا دوبارہ علامتی قتل سنگین رجحان

   

رام پنیانی
اِس مرتبہ 30 جنوری 2019ء کو جب سارا ملک ’بابائے قوم‘ مہاتما گاندھی کی 71 ویں برسی منارہا تھا، ہندو مہاسبھا کے ارکان نے علی گڑھ میں گاندھی جی کے قتل کا علامتی اعادہ کیا۔ ہندو مہاسبھا سکریٹری پوجا شکون پانڈے کی قیادت میں زعفرانی لباس میں میں کارکنوں کا گروپ ویڈیو شوٹنگ کی تیاری کے ساتھ جمع ہوا۔ پوجا نے گاندھی جی کے پتلے پر تین فائر کئے اور پتلے کے عقب میں لگے غبارہ سے خون بہنا شروع ہوا۔ وہاں جمع ہندو مہاسبھا ورکرز نے گاندھی جی کی مذمت اور اُن کے قاتل گوڈسے کی تعریف میں نعرے لگائے۔ وہ چلانے لگے ’’مہاتما ناتھورام گوڈسے امر رہیں‘‘۔ انھوں نے اعلان کیا کہ اِس سال سے وہ ہر سال گاندھی کے قتل کا علامتی اعادہ کریں گے جس طرح دسہرہ کے روز راون کا پتلا جلایا جاتا ہے۔ یہ ویڈیو وائرل ہوگیا۔ پوجا کے فیس بک پوسٹ میں اُس کی پہلے کی ایک تصویر بھی پیش کی گئی جس میں وہ بی جے پی قائدین سابق چیف منسٹر شیوراج سنگھ چوہان اور مرکزی بی جے پی وزیر اوما بھارتی کے ساتھ ہے۔ پولیس نے اس واقعہ میں ملوث بعض افراد کے خلاف فوجداری مقدمات درج کئے ہیں۔
ناتھو رام گوڈسے، ونایک دامودر ساورکر کی ستائش اور گاندھی جی پر لفظی حملے ہندو قوم پرستوں (ہندو مہاسبھا اور آر ایس ایس) کا نعرہ رہا ہے۔ چند سال قبل ایک جلسہ عام میں (موجودہ) صدر کانگریس راہول گاندھی نے بیان کیا تھا کہ آر ایس ایس والوں نے گاندھی جی کا قتل کیا، جس پر اُن کے خلاف کیس دائر کیا گیا تھا، اور آر ایس ایس چاہتا ہے کہ وہ معذرت خواہی کریں جبکہ راہول گاندھی اپنے بیان پر قائم ہیں۔ اسی طرح چند سال قبل بی جے پی لیڈر گوپال کرشنن نے کہا تھا کہ گوڈسے نے غلط نشانہ لگایا؛ اُسے گاندھی جی کے بجائے نہرو کو ہلاک کرنا چاہئے تھا کیونکہ نہرو تقسیم ہند کیلئے ذمہ دار رہے۔ بی جے پی ایم پی ساکشی مہاراج نے بیان کیا کہ گوڈسے حب الوطن تھا۔ سابق آر ایس ایس سرسنگھ چالک راجیندر سنگھ نے کہا تھا کہ گوڈسے کے ارادے درست تھے لیکن اُس کا طریقہ غلط رہا۔ ان ہندو قوم پرستوں میں سے کسی نے بھی کبھی مسلم لیگ یا جناح کو نشانہ نہیں بنایا، جنھوں نے ملک کی تقسیم میں دیگر کے بشمول رول ادا کیا۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران گوڈسے اور ساورکر کے حمایتی زیادہ خوداعتمادی کا مظاہرہ کرتے آئے ہیں۔
ہندو قوم پرستوں کی دو شاخوں ہندو مہاسبھا اور آر ایس ایس میں چند اختلافات ہیں، پھر بھی وہ تمام جو ہندوستانی قوم پرستی اور ہندوستانی دستور کے اقدار کی مخالفت کرتے ہیں، اُس نظریہ کے مخفی یا کھلے حمایتی رہے ہیں جس کے سبب گاندھی جی کا قتل کیا گیا۔ گاندھی جی کے قتل کیلئے جو عذر پیش کیا گیا وہ یہ کہ گاندھی جی کے سبب مسلمان زیادہ جرأت مند بنے، پاکستان کا مطالبہ کیا، اور ہندوستان کو 55 کروڑ روپئے پاکستان کو دینے پڑے۔ یہ حقیقت ہے کہ انھیں قتل کرنے کی کوششیں 1934 ء سے ہوتی رہیں۔ 30 جنوری 1948ء کا حملہ اس سلسلے کا چھٹا رہا۔ خود گوڈسے اس سے قبل دو حملوں میں ملوث تھا۔ نہرو نے اپنے سیاسی گرو کی موت پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے قومی کیفیت کا خلاصہ کرتے ہوئے کہا، ’’روشنی گل ہوگئی اور چاروں طرف اندھیرا چھاگیا ہے‘‘۔
تیستا سیتلواڈ نے اپنی تالیف Beyond Doubt میں اس مسئلہ سے جامع انداز میں نمٹا ہے۔ وہ وزارت داخلہ کے سرکلرز اور اس مسئلہ پر لکھی گئی ممتاز کتب (جگن پھڈنیس… Mahtyamechi Akher، وائی ڈی پھڈکے… Nathuramayan اور چنوئی بھائی ویدیا… Spitting on the Sun) کے حوالے سے استدلال پیش کرتی ہیں کہ تقسیم ہند اور پاکستان کو 55 کروڑ کا مسئلہ تو حیلے بہانے ہیں، کیونکہ یہ مسائل اُبھر آنے سے کافی قبل 1934، 1940 اور 1944ء میں گاندھی جی پر قاتلانہ حملے کی کوششیں ہوچکی تھیں۔ مہاتما پر حملوں کی حقیقی وجہ یہ تھی کہ وہ عظیم ہندو اور ہندو قوم پرستی کے سب سے بڑے حریف تھے۔ ہندو قوم پرستوں نے انھیں ہندو قوم کے اپنے ایجنڈے کیلئے بڑی رکاوٹ جانا۔ یقینا ہندو قوم پرستوں کی بڑی پُرتشدد حرکت ہمارے وقت کے عظیم ترین ہندو گاندھی جی کو ہلاک کرنا تھا۔ گوڈسے جو گاندھی جی کو قتل کرنے میں کامیاب ہوگیا، آر ایس ایس کا تربیت یافتہ پرچارک تھا، جو 1938ء میں ہندو مہاسبھا کی پونے برانچ میں شامل ہوا اور ایک اخبار بنام ’اَگرانی‘ معہ ضمنی نام ’ہندو راشٹر‘ کی ادارت کی۔ اُس کے جریدہ میں ایک کارٹون شائع کیا گیا جس میں گاندھی جی کو راون کے طور پر دکھایا گیا جس کے سروں (دو سَر پٹیل اور نیتاجی بوس) کو ساورکر دھڑ سے جدا کررہا ہے۔
گاندھی جی کے قتل کے بعد آر ایس ایس پر اُس وقت کے وزیر داخلہ سردار پٹیل نے پابندی عائد کردی، جنھوں نے ہندو مہاسبھا کے شیاما پرساد مکرجی کو اپنے مکتوب میں بیان کیا کہ یہ (قتل) ہندو مہاسبھا اور آر ایس ایس کی پھیلائی گئی نفرت کے سبب ہوا؛ جس کے باعث قوم نے اپنا سرپرست کھودیا۔ گاندھی جی قتل کے اصل ملزم گوڈسے کے کئی شریک جرم تھے جن میں ساورکر شامل تھا۔ اُسے کوئی تصدیقی ثبوت کے فقدان کے سبب چھوڑ دیا گیا۔ جیون لال کپور کمیشن نے سارے مسئلے کا جائزہ لینے کے بعد نشاندہی کی، ’’تمام تر حقائق کو جوڑ کر دیکھیں تو وہ کسی بھی نظریہ کی نفی کرتے ہیں سوائے اس کے کہ ساورکر اور اُس کے گروپ کی طرف سے قتل کی سازش ہوئی‘‘۔ جہاں تک گوڈسے کی آر ایس ایس ممبرشپ کا معاملہ ہے ہمیں نوٹ کرنا چاہئے کہ اُس وقت آر ایس ایس کا کوئی تحریری دستور اور ممبرشپ رجسٹر نہیں تھا۔ آر ایس ایس پر امتناع کی برخاستگی کیلئے شرائط میں ایک یہ رہی کہ اس کا تحریری دستور رہے گا۔ عدالت میں گوڈسے نے آر ایس ایس کا ممبر ہونے کی تردید کردی۔ آر ایس ایس والوں نے بھی گوڈسے آر ایس ایس کا حصہ ہونے کی تردید کی۔ اس کے برعکس ناتھورام کے بھائی گوپال نے جو اُس کے ساتھ شریک ملزم تھا، لکھا: ’’خوشامدانہ پالیسی جس پر وہ (گاندھی جی) عمل پیرا ہوئے اور تمام کانگریس حکومتوں پر تھوپی، اس نے مسلم علحدگی پسندانہ رجحانات کی حوصلہ افزائی کی جس نے آخرکار پاکستان بنایا۔‘‘
تکنیکی اعتبار سے اور نظریاتی طور پر وہ (ناتھورام) ممبر (آر ایس ایس) تھا، لیکن بعد میں اس کیلئے کام کرنا بند کردیا تھا۔ عدالت میں اُس کا بیان کہ وہ آر ایس ایس چھوڑ چکا تھا دراصل آر ایس ایس ورکرز کو بچانے کیلئے تھا؛ جن کو قتل کے تناظر میں قید میں ڈالا جائے گا۔ یہ سوچ کر کہ انھیں (آر ایس ایس ورکرز کو) اُس کی آر ایس ایس سے لاتعلقی اختیار کرنے پر فائدہ ہوگا، اُس نے بہ خوشی ایسا ہی کیا۔
آر ایس ایس میں ساورکر کو قوم پرستی کے معاملے میں اونچا مقام دیا جاتا ہے۔ ساری قوم پرستی جیسا کہ آر ایس ایس۔ ہندو مہاسبھا کا دعویٰ ہے، فرقہ واری ہندو قوم پرستی ہے، جو مسلم لیگ کی پیش کردہ مسلم قوم پرستی کی متوازی اور ضد ہے۔ وہ ساورکر ہی تھا جس نے انگریزوں سے معذرت خواہی کرتے ہوئے انڈمان جزائر سے اپنی رہائی پائی، اور بعد میں دو قومی (ہندو اور مسلم) نظریہ پیش کیا۔ یہ دراصل ہندوستانی قوم پرستی کی مخالفت میں تھا، جو گاندھی زیرقیادت کانگریس میں آگے بڑھ رہی تھی۔ موجودہ اعادہ کی بزدلانہ حرکت بالخصوص گزشتہ چند برسوں کے دوران آر ایس ایس۔ بی جے پی کی دیدہ دلیری بڑھنے کی علامت ہے۔
ram.puniyani@gmail.com