گاندھی جی کا پیام عدم تشدد آج بھی اہم

   

رامچندر گوہا
آئندہ ہفتہ ہم مہاتما گاندھی کے امر ہونے کی 75 ویں یاد منائیں گے۔ ویسے بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اپنی موت کے ایک طویل عرصہ بعد بھی گاندھی جی کی اہمیت باقی ہے؟ کیا انہیں اہمیت دی جانی چاہئے۔ اس کالم میں راقم کم از کم دس ایسی وجوہات اور دلائل پیش کرے گا کہ 21 ویں صدی کے تیسرے دہے میں بھی آخر گاندھی جی کی زندگی، ان کے نظریات ہنوز کیوں اہمیت رکھتے ہیں۔ گاندھی جی اور ان کے نظریات و تعلیمات کی آج بھی اہمیت ہے، اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ گاندھی جی نے ہندوستان اور دنیا کو یہ بتایا کہ ناانصافی، ظلم و جبر کے خلاف طاقت کا استعمال کئے بناء کیسے مزاحمت کی جاتی ہے۔ گاندھی جی نے ساری دنیا کو عدم تشدد (اہنسا) کا پیام دیا۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ستیہ گرہ کے آئیڈیا کی جوہانسبرگ کی امپائر تھیٹر میں منعقدہ ایک جلسہ میں تخلیق ہوئی۔ وہ تاریخی اجلاس 9 ستمبر 1906ء کو منعقد ہوا تھا۔ جب ہندوستانی ، گاندھی جی کی قیادت میں وہاں کے نسل پرستی پر مبنی امتیازی قوانین کے خلاف جیل بھرو مہم جیسے احتجاج کی تیاریاں کررہے تھے۔ اس دن کے 95 سال بعد امریکہ کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی بلند و بالا عمارتوں کو دہشت گردوں نے دھماکوں سے اُڑا کر زمین دوز کردیا۔ اس طرح دنیا نے دو 9/11 کے مشاہدے کئے۔ ایک 9/11 واقعہ جو 1906ء کو پیش آیا تھا، اس میں عدم تشدد پر مبنی جدوجہد اور شخصی قربانی کے ذریعہ حصول انصاف کی کوشش کی گئی تھی، ناانصافی اور نسل پرستی کے خاتمہ کا مطالبہ کیا گیا تھا، کمزوروں پر ظلم و زیادتی روکنے پر زور دیا گیا تھا۔ رنگ و نسل کی بنیاد پر امتیاز برتے جانے کی مخالفت کی گئی تھی اور دنیا نے 2001ء میں دوسرے 9/11 واقعہ کا مشاہدہ کیا جس میں دشمن کے خلاف دہشت گردی اور طاقت کا استعمال کیا گیا، تباہی و بربادی مچائی گئی، تشدد کا مظاہرہ کیا گیا جہاں تک ستیہ گرہ کا سوال ہے، تاریخ نے دنیا کو بتادیا کہ کس طرح ناانصافی کے خلاف تشدد کئے بناء احتجاج کیا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ستیہ گرہ نے اخلاقی بنیادوں پر فتح حاصل کی۔ لوگوں کے دل جیتے، نتیجہ میں دوسرے طریقوں سے کئے جانے والے احتجاجی مظاہروں کی بہ نسبت ستیہ گرہ کو عوام نے پسند کیا۔ جنوبی آفریقہ میں جہاں ہندوستان کی طرح انگریزوں کی حکمرانی تھی۔ گاندھی جی نے نسل پرستی کے خلاف پہلی آواز اٹھائی اور اس کے بعد ہندوستان میں بھی نسل پرستی اور رنگ و نسل کی بنیاد پر امتیازی سلوک روا رکھے جانے والے سلوک کیلئے انگریزی سامراج کو للکارا گاندھی جی کے اس طریقہ احتجاج (ستیہ گرہ) بھی دوسرے ملکوں کے ان لوگوں کیلئے قابل تقلید بن گئی جو نسل پرستی کا شکار تھے اور جن سے رنگ و نسل اور ذات پات کی بنیاد پر امتیاز برتا جارہا تھا۔اس طرح کی جدوجہد کی سب سے بڑی مثال امریکہ میں شہری حقوق کی جدوجہد رہی جس میں سیاہ فام باشندوں کو اپنے حقوق حاصل کرنے میں کامیابی ملی۔
آج بھی گاندھی جی اور ان کی تعلیمات و نظریہ کی اہمیت کیوں برقرار ہے، اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ گاندھی نے اپنے ملک سے پیار کیا، اسے ٹوٹ کر چاہا، اپنے ملک کی تہذیب و ثقافت سے پیار کیا اور ہندوستانی معاشرہ، اس کی تہذیب و ثقافت میں جو برائیاں اور خرابیاں پیدا ہوئیں، اسے دور کیا، جیسا کہ ممتاز مورخ بنسل کھلنانی نے کبھی ریمارک کیا تھا کہ گاندھی نہ صرف انگریزوں کے خلاف لڑ رہے تھے بلکہ ہندوستان سے بھی لڑ رہے تھے کیونکہ وہ اپنے معاشرہ کو اچھی طرح جانتے تھے، ہمارے معاشرہ میں اونچ نیچ اور ذات پات، رنگ و نسل کی بنیاد پر تفریق بڑی گہرائی تک پیوست ہوچکی تھیں، چھوت چھات نے ہندوستانی معاشرہ کو جکڑ رکھا تھا چنانچہ گاندھی جی نے ملک کو آزادی دلانے کے ساتھ ساتھ ہندوستان کو چھوت چھات اور ذات پات کی بنیاد پر برتی جانے والی تفریق سے بھی آزاد کروانے کی جدوجہد کی۔ گاندھی نے اس عمودی اکثر تاریخی طور پر مخالفت کردہ بلاک کے درمیان پل تعمیر کرنے اور خلیج پاٹنے کی کوشش کی۔ ان کیلئے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ہم آہنگی کی برقراری سب سے زیادہ اہم تھی اور ان کی ساری زندگی اسی کاز میں گذری۔ انہوں نے ہندوستان میں ہندو۔ مسلم اتحاد کیلئے زندگی گذاری اور ہندو مسلم اتحاد کیلئے مرنے کیلئے بھی تیار ہے۔ گاندھی کے نظریات اور ان کی تعلیمات کی آج بھی اس لئے اہمیت ہے کیونکہ وہ گجراتی تہذیب میں رچنے بسنے اور گجراتی نثر کے ایک مسلمہ استاذ کی حیثیت سے خاص پہچان رکھنے کے باوجوتنگ ذہن اور علاقہ پرست نہیں تھے۔