گاندھی جی کی تعلیمات فراموش۔ آر ایس ایس بگاڑ میں مگن

   

Ferty9 Clinic

رام پنیانی

’بابائے قوم‘ مہاتما گاندھی کی پیدائش کے 150 سال کے موقع پر میڈیا میں مضامین اور ویڈیوز کی بھرمار رہی۔ جہاں اکثر کی جانب سے سنجیدہ کوشش رہی کہ گاندھی جی کی تعلیمات اور راہ کو تازہ کرتے ہوئے موجودہ ہندوستان کیلئے مطابقت میں ثابت کیا جائے، وہیں ایسے بھی ہیں جو اس موقع کو خود اپنی واجبیت میں اضافہ کرنے کیلئے استعمال کرتے نظر آئے۔ یہ کام چالاکی سے اُن کی تحریروں یا اُن سے متعلق واقعات سے چیدہ چیدہ انتخاب کرتے ہوئے اور اُن کے حوالے دیتے ہوئے بھی کیا گیا، جن میں حوالوں کے اہم حصے چھوڑ دیئے گئے۔ یہ ہندو قوم پرستوں کے بارے میں درست ہے؛ بالخصوص آر ایس ایس پریوار۔ ایک طرف چالاکی سے انھوں نے گاندھی کو صفائی مہم کی علامت کے طور پر منتخب کیا، جس میں اُن کے فرقہ وارانہ بھائی چارہ کے اہم پیام کو چھوڑ دیا، دوسری طرف اب یہ ظاہر کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں کہ گاندھی جی آر ایس ایس میں ڈسپلن اور اختلافات نہ پائے جانے پر متاثر تھے۔
آر ایس ایس کے سب سے بڑے لیڈر موہن بھاگوت آر ایس ایس ویب سائٹ پر لکھتے ہوئے کہتے ہیں: ’’گاندھی جی نے تقسیم ہند کے دردناک دنوں کے دوران دہلی میں اپنی قیامگاہ کے قریب واقع شاکھا کا دورہ کیا۔ انھوں نے شاکھا میں سویم سیوکوں سے بات کی۔ اس کی رپورٹ ’ہریجن‘ مورخہ27 ستمبر 1947ء میں شائع ہوئی۔ گاندھی جی نے سنگھ کے سویم سیوکوں کے ڈسپلن اور ان میں ذات پات اور نسل کے انتشار پسند احساسات بالکلیہ نہ ہونے پر اپنی خوشی ظاہر کی۔‘‘ سب سے پہلے یہاں جس ہریجن شمارہ کی بات کی گئی وہ 27 نہیں بلکہ 28 ستمبر ہے۔ پھر جہاں ان کی باتیں درست ہیں ، وہیں پس منظر اور مزید انتباہ دیئے جانے کو حذف کردیا گیا جو اُن کے حوالہ کا حقیقی پیام دیتا ہے۔
گاندھی جی نے ایک موقع پر وردھا میں آر ایس ایس کو جمنالال بجاج کے ہمراہ اپنے دورے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ 1936ء میں ان کے تاثرات یہی تھے۔ تب سے یہ آرگنائزیشن کافی بڑھ گئی ہے۔ پھر وہ کہتے ہیں، ’’لیکن واقعی مفید ہونے کیلئے اپنے مفادات کی قربانی کے ساتھ خالص مقصد اور سچی معلومات ضروری ہیں۔ ان دو خاصیتوں کے بغیر قربانی سماج کیلئے تباہ کن ثابت ہوتی رہی ہے‘‘۔ گاندھی جی اس آر ایس ایس شاکھا کا مسلمانوں کی طرف سے کئی شکایات کے پس منظر میں 16 ستمبر کو دورہ کیا تھا۔ اُن شکایات کے پس منظر میں اس حوالہ کا مطلب اور بھاگوت کے بیان کردہ حوالے کے حصے کے بعد کا جملہ حقیقی تصویر پیش کرتا ہے کہ گاندھی جی نے آر ایس ایس شاکھا کے والنٹیرز کو کیا پیام دیا۔
یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ انھوں نے آر ایس ایس کے تعلق سے بات کی۔ ہریجن کے 9 اگست 1942ء شمارہ میں گاندھی جی لکھتے ہیں: ’’میں نے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اور اس کی سرگرمیوں کے بارے میں سنا ہے؛ اور جانتا بھی ہوں کہ یہ فرقہ پرست تنظیم ہے‘‘، یہ ’دیگر‘ کمیونٹی کے خلاف ان نعروں اور کوئی تقریر کے جواب میں تھا، جس کی شکایت کی گئی تھی۔ اس میں گاندھی جی آر ایس ایس والنٹیرز کی مشق کا تذکرہ کررہے ہیں، جنھوں نے چلا چلا کر کہا کہ یہ ملک صرف ہندوؤں کا ہے اور جیسے ہی انگریز چلے جائیں، ہم غیرہندوؤں کو ماتحت بنائیں گے۔ فرقہ پرست تنظیموں کی غنڈہ گردی کے جواب میں انھوں نے لکھا: ’’میں آر ایس ایس کے بارے میں کئی باتیں سن رہا ہوں۔ میں نے سنا ہے کہ سنگھ یہ تمام تر شرارت کی جڑ ہے۔‘‘ (گاندھی، xcviii، 320-32)۔
راج موہن گاندھی نے اپنی کتاب موہن داس (صفحہ 642) میں نشاندہی کی ہے کہ ’’آزادی کے بعد دہلی تشدد کے تناظر میں گاندھی نے آر ایس ایس سربراہ گولوالکر سے سوالیہ انداز میں کہا کہ دہلی تشدد میں آر ایس ایس ہاتھ کی رپورٹس ہیں۔ ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے گولوالکر نے بھی کہا کہ آر ایس ایس مسلمانوں کو ہلاک کرنے کا موقف نہیں رکھتا ہے۔ گاندھی جی نے ان پر یہ بات سرعام کہنے پر زور دیا۔ گولوالکر نے کہا کہ گاندھی جی اس بارے میں ان کا حوالہ دے سکتے ہیں۔ گاندھی جی نے اُسی شام دعائیہ اجتماع میں یہ بات کہی، لیکن انھوں نے گولوالکر سے کہا کہ یہ بیان ان کی طرف سے آنا چاہئے۔ بعد میں انھوں نے نہرو سے کہا کہ انھیں گولوالکر کی بات اطمینان بخش نہیں معلوم ہوئی۔
آر ایس ایس کے بارے میں گاندھی جی کا ٹھیک ٹھیک نظریہ اُن کے سکریٹری پیارے لال نے پیش کیا۔ وہ 1946ء فسادات کے تناظر میں ایک واقعہ بیان کرتے ہیں۔ گاندھی جی کے قافلے کے ایک ممبر نے واگھا میں جو پنجاب کے پناہ گزینوں کیلئے بڑا ٹرانزٹ کیمپ تھا، آر ایس ایس کیڈر کی کارکردگی، ڈسپلن، ہمت اور سخت محنت کی صلاحیت کو سراہا۔ گاندھی جی نے فوری جواب دیا: ’’…مگر فراموش نہ کرو، یہی حال ہٹلر کے نازیوں اور موسولینی کی حکمرانی میں فاشستوں کا تھا۔ گاندھی جی نے آر ایس ایس کو فرقہ پرست تنظیم مانا جس کا مطلق العنان نظریہ ہے۔‘‘ (پیارے لال، مہاتما گاندھی: دی لاسٹ فیز)
آر ایس ایس کی ایسا ظاہر کرنے کی ضرورت کہ وہ مہاتما کے بارے میں درست موقف پر ہیں، نمائشی ہے۔ آر ایس ایس پریوار ’خاص ہندو قوم پرستی‘ کا خیال پیش کرتا ہے، جو گاندھی جی کی ’تمام کی شمولیت کے ساتھ ہندوستانی قوم پرستی‘ کے برعکس ہے۔ پھر بھی انھیں اپنے وقت کے عظیم ترین ہندوؤں میں شامل گاندھی جی سے واجبیت حاصل کرنے کی ضرورت پڑرہی ہے۔
گاندھی جی ایسی شخصیت بھی ہیں جو ہندوستان اور عالمی سطح پر شہرہ ہے۔ اس بلند درجہ پر آر ایس ایس کے اثر کے طور پر سنگھ پریوار ایسے ناموں کے ساتھ وابستگی کے ذریعے مزید طاقت حاصل کرنا چاہتا ہے جن کا نظریہ خود ان کی آئیڈیالوجی کے ساتھ مقاصد میں برعکس ہے۔ سردار پٹیل، سبھاش چندر بوس ایسی بڑی شخصیتیں ہیں جن کے ساتھ آر ایس ایس اپنی شناخت بنانے کوشاں ہے، حالانکہ ان کے اور پٹیل اور بوس جیسے قائدین کی پیش کردہ قوم پرستی کی نوعیت میں بڑے اختلافات ہیں۔
تحریک آزادی کی سب سے بڑی شخصیت گاندھی جی کو آر ایس ایس کے ایک پرچارک (تنظیم کے نظریہ کی نشر و اشاعت کرنے والا) نتھورام گوڈنے قتل کیا۔ گوڈسے کا ہندوستانی قوم پرستی پر ہندو قوم پرستی کا منصوبہ بند نظریاتی حملہ ہوا۔
آر ایس ایس کی بڑی کوششیں قوم پرستی کے تاریخی بیانیہ کو نئے انداز میں پیش کرنے کی رہی ہیں۔ اس ضمن میں انھوں نے قرون وسطیٰ کی تاریخ کو ایسے دور کے طور پر پیش کیا جس میں مسلم حملہ آوروں نے ہندوؤں پر ظلم کیا؛ اور اس طرح ہندومت کو اس سرزمین کا اصل مذہب اور اسلام اور عیسائیت کو بیرونی مذاہب قرار دینے کی کوشش کی۔ آریائی نسل کو اصلی ہندوستانی ثابت کرنے کیلئے تمام تر نظریاتی قلابازیوں کی کوششیں اس مساعی میں ایک اور جبری عمل رہا ہے۔ ان سب کے بعد سائنس اور ٹکنالوجی کے کارہائے نمایاں کو بھی اس سرزمین سے جوڑا جارہا ہے۔
اس معاملے کا معمہ آخرکار نام نہاد ہندو ماضی اور اس کے ساتھ ساتھ ذاتوں کے اقدار اور اُس وقت رائج جنس کے درجات کی تعریف و توصیف سے آشکار ہوجاتا ہے۔ گاندھی جی کے ساتھ شناخت بنانا اس سمت میں ایک اور قدم ہے۔ یہ نظریاتی الٹ پھیر گزشتہ چند برسوں کے دوران زیادہ شدت کے ساتھ زور پکڑ چکے ہیں۔ ہمیں گاندھی جی کو توڑ مروڑ کر پیش کی جانے والی شکلوں سے بچانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ناانصافی کے خلاف ان کی جدوجہد، اور قوم و سماج کے مسائل پر مشمولاتی رحمدلانہ طرزعمل پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔٭
[email protected]