گجرات طرز پر دہلی فسادات میں مماثلت

   

کپل مشرا بی جے پی قائد کی اشتعال انگیزی ، اترپردیش سے فسادیوں کی طلبی ، انگریزی اخبارات کی رپورٹنگ
حیدرآباد۔28 فروری(سیاست نیوز) دہلی اور گجرات فسادات میں کئی طرح کی مماثلت سامنے آنے لگی ہیں اور کہا جا رہاہے کہ کئی طرح سے گجرات میں ہوئے 2002 کے فسادات سے دہلی کے 2020 فسادات میں یکسانیت پائی جاتی ہے اور اس سلسلہ میں کئی مثالیں دی جا رہی ہیں اور کہا جار ہاہے کہ فساد بھڑکانے کیلئے مقامی لوگوں کے بجائے پڑوسی ریاستوں کے عوام کا استعمال کیا گیا ہے۔ اتوار کی شب شروع ہونے والے اس فساد سے قبل بی جے پی قائد کپل مشرا کا ویڈیو منظر عام پر آیا جس میں انہوں نے جعفر آباد میں سی اے اے مخالف احتجاج کے لئے روکے گئے راستہ کو خالی کروانے کا پولیس کو انتباہ دیا تھا لیکن اس سے قبل ہی اترپردیش سے کئی گاڑیوں اور بسوں میں فسادیوں کو جمع کرلیا گیا تھا۔ انگریزی اخبارات کے علاوہ غیر جانبداری کے ساتھ صحافت کرنے والے صحافیوں کی جانب سے شائع کی جانے والی رپورٹس کے مطابق 23فروری کو شروع ہونے والے اس فسادسے قبل ہی پڑوسی ریاست اترپردیش سے گاڑیوں اور بسوں میں نوجوان دہلی اور اترپردیش کے سرحدی مواضعات میں جمع ہونے لگے تھے۔ گجرات 2002میں بھی مقامی شہریو ںکی جانب سے فساد میں راست حصہ نہیں لیا گیا تھا بلکہ مقامی سیاستدانوں نے صرف بھڑکانے کا کام کیا تھا لیکن فسادیوں کا تعلق دوسری ریاستوں سے تھا اور ان کی بڑی تعداد گجرات پہنچی تھی اور اب دہلی میں بھی یہ کہا جا رہاہے کہ دہلی میں فساد بھڑکانے والے بھارتیہ جنتا پارٹی کے دہلی کے سیاستداں رہے لیکن فسادیوں میں بڑی تعداد مقامی نہیں تھی ۔ قومی ٹیلی ویژن چیانلس کی جانب سے پیش کئے جانے والے انٹرویوز میں بھی خود فساد متاثرین اور مقامی عوام اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ فساد پر اکسانے اور فساد بھڑکانے والے فسادی مقامی نہیں تھے کیونکہ اگر وہ مقامی ہوتے تو وہ انہیں پہچان پاتے بلکہ مقامی اکثریتی واقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے عوام نے فسادیوں کو اپنی بستیوں میں داخل ہونے سے متحدہ طور پر روکنے میں اہم کردار ادا کیا اور اکثریتی طبقہ کے عوام یہ کہہ رہے ہیں کہ مندروں پر کئے جانے والے حملہ کو مسلمانوں نے خود روکا اور کئی مقامات پر اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والوں کو اکثریتی آبادیوں کی جانب سے پناہ دیئے جانے اور ان کی محفوظ منتقلی کو یقینی بنائے جانے کے اقدامات کی بھی ستائش کی جارہی ہے جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ فساد میں ملوث افراد کی بڑی تعداد کا تعلق پڑوسی ریاست سے رہا ہے۔